پاکستان ‘ سنجیدہ کوششوں کی ضرورت

   

پاکستان داخلی طور پر انتہائی افرا تفری کا شکار ہے ۔ حکومت کا وجود عملا بے معنی ہوکر رہ گیا ہے ۔ مہنگائی پر قابوپانے میں حکومت کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عوام پر جو مہنگائیکا بوجھ عائد ہوتا جارہا ہے اس کی حکومت کو کوئی فکر لاحق نہیں ہے ۔ ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہونچ گئی ہے ۔ ملک کسی بھی وقت دیوالیہ ہوسکتا ہے ۔ سری لنکا کے نقش قدم پر جانے سے شائد ہی کوئی روک سکے ۔ عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈز حاصل کرنے کی کوششوں میں اب تک حکومت کو ناکامی ہی ہاتھ آئی ہے ۔ حکومت ملک کے داخلی حالات کو بہتر بنانے کی کوششوں کی بجائے بیرونی اداروں سے فنڈز حاصل کرنے پر ہی توجہ مرکوز کئے ہوئی تھی اور اس کے خاطر خواہ اور توقع کے مطابق نتائج برآمد نہیں ہوسکے ۔ حکومت اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کیلئے سیاسی اختلافات کو شخصی عناد اور دشمنی کی شکل دینے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کوجس طرح سے عدالت کے احاطہ سے گرفتار کیا گیا تھا وہ انتہائی غلط مثال قائم کی گئی ہے ۔ عمران خان مقدمات کے سلسلہ ہی میں عدالت سے رجوع ہوئے تھے ۔ انہیں عدالت سے رجوع ہونے اور قانونی لڑائی کا موقع دئے بغیر احاطہ عدالت سے گرفتار کرتے ہوئے ایک غلط مثال قائم کی گئی ۔ حکومت کی جانب سے سیاسی ڈرامہ بازیوں کو ختم کرنے کی بجائے انہیں طوالت دینے کی کوشش عملا کی گئی ہے ۔ جس طرح کی حکمرانی پاکستان میں چل رہی ہے وہ حکمرانی کم جرگہ یا پنچایت کی طرح کے اقدامات ہیں۔ اس سے ساری دنیا میں پاکستان کا مذاق بن رہا ہے اور اس کیلئے حکمران ذمہ دار ہیں۔ عوام کی بہتری پر توجہ دینے اور حکومت اور اپوزیشن میں ایک اشتراک پیدا کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کیلئے مشترکہ کوششوں کی بجائے باہمی اختلافات کو دشمنی تک پہونچانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کو عمران خان کے معاملے میں منہ کی کھانی پڑی ہے اور عمران خان کی نہ صرف ضمانت منظور ہوگئی بلکہ ان کی گرفتاری کو غیر قانونی بھی قرار دیدیا گیا ۔ اب حکومت پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے لگی ہے ۔
پاکستان داخلی طور پر جن حالات کا شکار ہے وہ انتہائی تشویشناک کہے جاسکتے ہیں۔ حکمران اپنی انا کی تسکین میں لگے ہیں اور سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانا ہی ان کا واحد مقصد رہ گیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کو بچانے کی فکر کی جاتی ہے ۔ سنجیدہ کوششوں کے ذریعہ عوام پر پڑنے والے مہنگائی کے بوجھ کو کم کرنے کی راہیں تلاش کی جاتیں۔ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے جامع منصوبے بنائے جاتے ۔ ٹکنالوجی اور ترقی کو یقینی بناتے ہوئے حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن اس جانب نہ حکمرانوںکی توجہ دکھائی دیتی ہے اور نہ اپوزیشن کی توجہ دکھائی دیتی ہے ۔ صرف ایک بے ہنگم نظام ہے جو ملک کو چلا رہا ہے ۔ اس کے ذریعہ حالات نہ کبھی بہتر ہوئے ہیں اور نہ کبھی ہوسکتے ہیں۔ جب تک پاکستان کے سیاسی قائدین اور حکمرانوں میں ملک کو بچانے اور ملک کے عوام کو مشکلات سے راحت دلانے کیلئے سنجیدگی نہیں پیدا ہوتی اس وقت تک وہاں کے حالات بہتر ہونے کی امید کرنا فضول ہی ہے ۔ خود پاکستان کے مستقبل اور اس کے وجود پر بھی سوال پیدا ہونے لگے ہیں اور یہ سوال اور اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں۔ ملک چلانے والے نظام کے جو شعبہ جات ہیں ان میں ہر شعبہ اپنی ہی سمت کا تعین کر رہا ہے جبکہ اجتماعی سمت کا تعین کرتے ہوئے سبھی شعبوں کو ایک سمت میں پیشرفت کرناچاہئے جو پاکستان کے موجودہ حالات میں ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ محض اقتدار کیلئے قوانین کو پامال کرنا اور من مانی انداز اختیار کرنا ایک سنجیدہ قوم کا شیوہ نہیں ہوسکتا ۔
عمران خان گرفتار بھی ہوئے ۔ عدالتوں سے انہیں ضمانت بھی مل گئی ۔ ان کی عوامی مقبولیت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ وہ پہلے بھی سب سے مقبول لیڈر ہی کہے جاتے تھے اور اب بھی اس میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے حکمران اور سبھی ذمہ دار گوشے سنجیدگی اختیار کریں۔ ملک کے تئیں اپنے دعووں کو عملی شکل دینے کی کوشش کی جائے ۔ ملک کی معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی دیوالیہ ہوجائیگا اور اس کا حشر بھی سری لنکا جیسا ہوجائیگا ۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوگئے تو پھر پاکستان کا مستقبل غیر یقینی ہو ہی جائیگا ۔