پاکستان کا ازخود ٹوئٹ بالا کوٹ حملے کا ثبوت ، ذمہ دار کون

,

   

’راہو ل اور پرینکا میں کون بہتر‘ کانگریس کا داخلی معاملہ،وزیراعظم نریندر مودی کا بیان
نئی دہلی 5اپریل (سیاست ڈاٹ کام ) وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں وکشمیر کے پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے قافلے پر فدائین دہشت گرد حملے کے بعد بالاکوٹ میں فضائی کاروائی کا ثبوت مانگنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا ثبوت پاکستان نے خود ٹویٹ کرکے دنیا کو دیا تھا۔مسٹر مودی نے اے بی وی پی نیوز چینل کو دیے انٹرویو میں پاکستان کے بالاکوٹ میں ہندوستانی فضائیہ کی کارروائی کا ثبوت مانگے جانے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا‘‘سب سے بڑا ثبوت پاکستان نے خود نے ٹویٹ کرکے دنیا کو دیا ۔ ہم نے تو کوئی دعوی نہیں کیا تھا۔ ہم تو اپنا کام کرکے خاموش بیٹھے تھے ۔ اس کاروائی میں کتنے مرے ، کتنے نہیں مرے ، یہ جس کو جھگڑا کرنا ہے کرتا رہے ‘‘۔ انہوں نے کہا‘‘اگر ہم نے فوج پر کچھ کیا ہوتا یا شہریوں پر کچھ کیا ہوتا تو پاکستان دنیا بھر میں چلا چلا کر ہندوستان کو بدنام کر دیتا، تو ہماری حکمت عملی یہ تھی کہ ہم غیر فوجی کاروئی کریں گے اور عوام کا کوئی نقصان نہ ہو اس کا دھیان رکھیں گے ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کے روز اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ ہندوستان کے لئے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور ان سے پہلے کے وزیراعظم نواز شریف میں سے کون بہتر اور سہل ہے ۔مسٹر مودی نے کہا کہ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان میں حقیقت میں معاملات کون سنبھالتا ہے ، ایک منتخب حکومت یا کوئی اور۔انہوں نے ٹی وی نیوز چینل اے بی پی نیوز کے ساتھ انٹرویو کے دوران پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا فیصلہ پاکستان کے لوگوں کو کرنے دیں۔ میرا کام ہندوستان کے مفادات پر توجہ مرکوز کرنا ہے ۔

پاکستان کی انتظامیہ کو چلانے میں میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے ’’۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کرکٹر سے لیڈر بنے مسٹر خان، نواز شریف سے زیادہ ہوشیار ہیں، وزیر اعظم نے کہا کہ ’’وہ (عمران خان) کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے ، ان سب باتوں کو پاکستان کے لوگوں پر چھوڑ دیں‘‘۔مسٹر مودی نے کہاکہ ‘‘میں نے دنیا کے کئی لیڈروں سے بات کی ہے اور انہوں نے کیا کہا اور مجھے کیا محسوس ہوا، دنیا کے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان کے معاملات کو کون سنبھالتا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘کانگریس صدر راہول گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی واڈرا میں کون بہتر’ کے سوال کو کانگریس کا داخلہ معاملہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کا ان کا حق نہیں ہے ۔ٹیلی ویژن چینل اے بی پی نیوز پر جمعہ کو مسٹر مودی کے نشر ہوئے انٹرویو میں ‘گاندھی بھائی بہنوں میں سے بہتر لیڈر کون ہے ’ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہاکہ ‘‘کون اچھا یا کون برا، میں ذاتی طور پر کسی سے واقف نہیں ہوں، نہ کبھی بیٹھ کر کسی موضوع پر ہمیں بحث کا موقع ملا ہے اور اس لئے اس کا فیصلہ کرنے کا میرا حق نہیں بنتا ۔ یہ کانگریس پارٹی کا داخلی معاملہ ، اسے جو اچھا لگے اسے لیڈر بنائے ‘‘۔محترمہ واڈرا کے وارانسی سے مسٹر مودی کے خلاف الیکشن لڑنے کے سوال پر وزیر اعظم نے کہاکہ ‘‘مودی الیکشن جیتے یا ہارے ، یہ فیصلہ عوام کا ہے ۔ مودی پہلی بار بنارس سے پرچہ نامزدگی داخل گیا تھا اور بعد میں جس دن انتخابی تشہیر مکمل ہوئی ، اس دن میں نے جلسہ عام کی اجازت مانگی تھی، لیکن وہاں کی حکومت ایسی تھی، وہاں کا ریاستی الیکشن کمیشن ایسا تھا کہ میرے جلسے کرنے پر پابندی لگا دی تھی‘‘۔ گجرات سے باہر بنارس سے الیکشن لڑنے کے لئے منتخب ہونے کے سوال پر مسٹر مودی نے کہا ‘‘تنظیم جو طے کرے وہ میں کرتا ہوں، تو اس وقت تنظیم کے لوگوں کو محسوس ہوا کہ مجھے بنارس سے الیکشن لڑنا چاہئے ۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جی نے وہاں کافی اچھا کام کیا ہے ، جوشی جی کا آشیرواد تھا اور قدرتی بات ہے کہ پارٹی نے طے کیا تھا، سو میں چلا گیا تھا‘‘۔