بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
پاک مقبوضہ کشمیر میں کارروائی
پاکستان کیساتھ تعلقات کو کشیدگی کی انتہا تک لے جانے والی کارروائیوں سے حالات مزید ابتر ہورہے ہیں ۔ پاکستان کی بلا اشتعال فائرنگ کے بعد جوابی اقدام کا دعویٰ کرتے ہوئے ہندوستانی فوجی سربراہ نے پاک مقبوضہ کشمیر میں وادی نیلم میں سرگرم دہشت گرد کیمپ کو تباہ کرنے اور پاکستانی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی بات کہی ۔ بپن راوت کا یہ جملہ بھی غور طلب ہے کہ ہند ۔ پاک کشیدگی کے پیچھے کسی اور طاقت کے اندیشہ کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ آخر یہ طاقت کون ہے اور اس کے برصغیر میں امن کو درہم برہم کرنے کا موقع کیوں دیا جارہا ہے ۔ یہ سوال اہم اور نازک ہے ۔ پاکستان کی سرزمین پر دہشت گرد کیمپوں کو تباہ کرنے کی وجہ سرحد پار سے ہندوستان میں داخل ہونے کی دہشت گردوں کی کوششوں کو بتایا گیا ہے ۔ جموں و کشمیر میں 370 کی برخاستگی کے بعد ساری فوجی طاقت سرحدوں پر جھونک دی گئی ہے ۔ سرحدی چوکسی اور فوجی تعیناتی کے باوجود اگر دہشت گرد اس علاقہ میں سرگرم ہیں تو یہ تشویش کی بات ہے ۔ ہندوستانی فوجی سربراہ نے پاک مقبوضہ کشمیر میں موثر کارروائی کرنے کا ادعا کرتے ہوئے 6 تا 10 پاکستانی سپاہیوں کو مارنے اور کئی دہشت گردوں کی ہلاکت کی بھی اطلاع دی۔ جموں کشمیر کا گندھار سیکٹر پر دراندازی کی کوشش کو روکنے میں فوج اگرچیکہ وقتی طور پر کامیاب ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی فوج کو یہ بھی شکایت ہے کہ پاکستان کی فوج بلا اشتعال فائرنگ کرتے ہوئے ہندوستانی سپاہیوں کو نشانہ بنایا ہے جس کے جواب میں سخت کارروائی ناگزیر تھی ۔ پاکستان پر یہ الزام متواتر لگایا جاتا ہے کہ وہ کشمیر میں دہشت گردوں کو گھسانے کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے اس علاقہ میں بے چینی اور بدامنی رہتی ہے ۔ 3 سال قبل اسی دن ہندوستانی فوج نے دہشت گرد کیمپس پر سرجیکل اسٹرائیک کیا تھا ۔ 28 ستمبر 2016 میں ہندوستانی فوج کے تقریبا 100 نہایت ہی تربیت یافتہ بہادر سپاہیوں کو خصوصی طور پر اس آپریشن کے لیے تعینات کیا گیا تھا ۔ اس بڑی کارروائی کے بعد نریندر مودی حکومت نے عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ پاک سرزمین پر اب دہشت گردوں کے کیمپس تباہ ہوچکے ہیں ، خطرات ٹل گئے ہیں ۔ لیکن 3 سال بعد یہ خطرہ پھر منڈلانے کا دعویٰ کرتے ہوئے پاک مقبوضہ کشمیر میں فوجی کارروائی کی گئی ۔ اس کارروائی کے بعد بھی یہی کہا گیا کہ اب دہشت گرد ہمارے ملک میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کریں گے ۔ ہندوستانی فوج کی اس جرأت کی ستائش کی جانی چاہئے ۔ کیوں کہ یہ سب سے بڑی کارروائی ہے لیکن اصل سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ آخر ملک میں اسمبلی انتخابات یا عام انتخابات کے عین قریب ہی سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائیوں میں شدت پیدا کرنے کا مظاہرہ کیوں کیا جاتا ہے ۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ اسمبلی انتخابات کے لیے رائے دہی سے ایک دن قبل پاک مقبوضہ کشمیر میں گھس کر دہشت گرد کیمپوں کو تباہ کرنے کی کارروائی کی زبردست تشہیر کی جارہی ہے جب کہ فوجی اعتبار سے کی جانے والی ایسی کارروائیوں کو زیادہ تر مخفی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ فوج کو باوثوق ذرائع سے معتبر اطلاع ملی تھی کہ 200 سے زائد دہشت گرد کیمپ کام کررہے ہیں ۔ ان دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے لیے ہندوستانی فوج کے پاس عصری ہتھیار ہیں لیکن آرٹیلری گنس کو استعمال نہیں کیا گیا ۔ پاک مقبوضہ کشمیر پر اس تازہ ایکشن کے بعد بھی فوج کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ دہشت گرد بھی جوابی کارروائی کرنے کا موقع تلاش کرسکتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ سرحدی ہندوستانی فوج ہر حملے کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن ہندوستانی سپاہیوں کی قیمتی جانوں کے تحفظ کے ساتھ چوکسی برقرار رکھی جائے تو یہ احتیاط اب تک کے تجربات کا مظہر ہوگا ۔ پاکستان کو بھی اپنے حصہ کے طور پر یہ پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ سرحد پر دہشت گرد سرگرمیوں کو روکنے میں وہ ناکام کیوں ہے ۔۔
