پردہ کے مسئلہ کو سمجھنے کیلئے تہذیبوں کے تفاوت کو سمجھنا ضروری

   

شاہی مسجد باغِ عامہ میں مولانا احسن بن محمد الحمومی کا خطاب
حیدرآباد۔12؍فروری (پریس نوٹ) اسلامی تہذیب اور مغربی ’تہذیب‘ میں نمایاں فرق ہے۔ یہ دو تہذیبیں اور نظریات اپنے اپنے دائرہ میں گھوم رہے ہیں۔ اسلام اور مغرب کی کشمکش جاری ہے۔ مغربی تہذیب کا تصورِ انسان ’’کیڑا‘‘ یعنی جانور ہے۔اس تہذیب میں نظریۂ ارتقا کے مطابق انسان کو کیڑا سمجھا جاتا ہے اور بندر سے ترقی کرتے ہوئے انسان مانا جاتا ہے۔ جب کہ اسلام کا تصورِ انسان بہت واضح ہے۔ اسلام دنیا کی تمام مخلوق میں انسان کو اشرف، برتر اور اعلی مانتا ہے۔اس وقت پوری دنیا میں اسلام اور تہذیبِ مغرب کے درمیان نظریاتی کشمکش ہے اور یہی نظریاتی کشمکش ہندوستان میں بھی نظر آتی ہے۔ اسی لیے ہندوستان میں رہنے کی قیمت شریعت سے مفاہمت کرکے ادا نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں اپنے پورے تشخص اور شعائر کے ساتھ یہاں زندہ رہنا ہے اور اس کے لیے کسی بھی طرح کی مفاہمت نہیں کی جاسکتی۔ ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی نے شاہی مسجد باغِ عامہ میں خطبۂ جمعہ کے دوران کیا ہے۔مولانا احسن بن محمد الحمومی نے کہا کہ انسان کا رویہ اس کے علم پر منحصر ہوتاہے۔ جب انسان کو معلوم ہو کہ اس کی شروعات بندر کی طرح ہوئی ہے، تو اس کا رویہ بھی جانوروں جیسا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب انسان کو معلوم ہوجائے کہ وہ شروع سے ہی انسان ہے تو اس کے رویہ اور سوچنے، سمجھنے میں تبدیلی آئی گی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی تہذیب اور نام نہاد مغربی ’’تہذیب‘‘ میں کتنا فرق ہے۔ اسی لیے اگر بحث ہوگی تو دونوں کی کل تہذیب اور طریقہ زندگی پر ہوگی۔ اسلام خاندان کے ادارے کا تصور پیش کرتا ہے، جس میں مرد و خواتین کو بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام نے خواتین اور مردوں کو آپس میں معاون اور مددگار کے طور پر رہنا سکھایا ہے۔ اسلام خواتین کے لیے پروقار اور باعزت زندگی اور خاندانی نظام پیش کرتا ہے۔ اسلام نے مرد کے لیے الگ اور خواتین کے لیے الگ دائرۂ عمل رکھا ہے۔ جب کہ کچھ مغرب نواز، تشکیک میں مبتلا اور احساس کمتری کا شکار مسلمان اسلامی تعلیمات کو میڈیا میں غلط طور پر پیش کررہے ہیں۔مولانا نے دوران خطبہ قرآنی آیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں اور ازدواج کو پردہ کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم امت کی عام خواتین کے لیے بھی ہے۔ مولانا نے کہا کہ اے امت کی بیٹیوں اور بہنوں! آپ اپنا وقار اور عزت اپنے پردے کے ذریعہ ظاہر کریں۔ کیونکہ مہذب، عزت دار اور باوقار خواتین کا لباس برقعہ ہے۔ مولانا احسن نے کہا کہ یہ بہترین اور نایاب موقع ہے کہ پردے کے مسئلہ پر واشگاف انداز میں دنیا کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو پیش کیا جائے۔ ہندوستان میں پیش آنے والے حالات کے ضمن میں سیاسی شعور اور بیداری ضروری ہے۔ بقول مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی حسینی ندوی ’اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں بلکہ سو فیصدتہجد گزار بنادیا جائے لیکن ا س کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے اور ملک کے احوال سے ان کو واقف نہ کیا جائے، تو ممکن ہے اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر بھی پابندی عائد ہوجائے‘۔ مولانا نے کہا کہ نوجوانوں میں جرات عورتوں کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ جہاں مرد کمزور پڑ جاتے ہیں، وہاں خواتین کھڑی ہوجاتی ہیں اور حالات کا مقابلہ کررہی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے مسلم لڑکیاں، لڑکوں سے بھی تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان کی تعلیمی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ وہ اپنے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کیمپس میں اسلامی شناخت کے ساتھ باوقار انداز میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تخربی عناصر مسلم طالبات کی اس کامیابی کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ اب ان عناصر کا براہ راست ٹکراؤ کیمپس میں بھی ہورہا ہے۔ ایسے میں نہ ہمیں حجاب کے لیے تعلیم کو چھوڑنا ہے اور نہ ہی تعلیم کے لیے پردہ سے مفاہمت کرنا ہے۔ یہ دونوں مسلم خواتین کے لیے لاز م و ملزوم ہے۔مولانا احسن نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ جو مسلمان سرمایہ دار ہیں۔ وہ جگہ جگہ شادی خانے کھولنے کے بجائے تعلیمی اداروں کو قائم کریں۔ جدید سہولیات سے لیس تعلیمی اداروں کا قیام آج کے حالات میں ضروری ہے۔ جس سے مسلم طلبہ و طالبات کو حصول تعلیم میں مدد ملے گی اور یوں تعلیم بھی عام ہوگی۔