پرشانت کشور محتاط یا خوفزدہ ؟

   

ملک بھر میںسیاسی حکمت عملی کے ماہر سمجھے جانے والے پرشانت کشور کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ کئی ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کی کامیابی کو پرشانت کشور کی مدد کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی کامیابی میں بھی پرشانت کشور نے سرگرم رول ادا کیا تھا ۔ اس کے بعد بہار میں مہا گٹھ بندھن ‘ بنگال میں ممتابنرجی ‘آندھرا پردیش میں وائی ایس جگن موہن ریڈی ‘ ٹاملناڈو میں ایم کے اسٹالن کے ساتھ کام کرتے ہوئے پرشانت کشور نے ان کو انتخابات میں کامیابی دلانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ پرشانت کشور کئی سیاسی جماعتوں کیلئے ایک بہترین اثاثہ ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں ان کی خدمات حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔ اب جبکہ کانگریس پارٹی بھی اپنی کمزوری کو ختم کرنے اور انتخابی شکستوں کا سلسلہ روکنے کیلئے سنجیدگی سے غور کر رہی ہے تو اس نے بھی پرشانت کشور سے رابطہ کیا تھا ۔ پرشانت کشور کے ساتھ کانگریس کی طویل ملاقاتیں ہوئیں۔ کانگریس صدر نے بھی بات چیت میں حصہ لیا ۔سینئر قائدین کو بھی بات چیت کا حصہ بنایا گیا ۔ ان سے مشاورت بھی کی گئی۔ تاہم آخر میں دونوں میں پرشانت کشور کی کانگریس میں شمولیت کے تعلق سے کوئی اتفاق رائے نہیں ہوسکا ۔ پرشانت کشور حالانکہ کانگریس سے بات چیت ختم کرچکے ہیں لیکن اب بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ کانگریس کیلئے نرم گوشہ بنائے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف وہ فوری حرکت میں آتے ہوئے خود کو بہار کیلئے سرگرم کرنے کا اعلان بھی کرچکے تھے ۔ وہ بہار میں سرگرم رول ادا کرنا چاہتے ہیںاور یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ پرشانت کشور کانگریس سے مایوسی کے بعد خود علاقائی جماعت قائم کرنے کی کوشش کریں گے ۔ انہوں نے بہار میں اہم سماجی جہد کاروں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں تاہم انہوں نے اچانک ہی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ ٹال دیا اور بہار میں تین ہزار کیلو میٹر کی پد یاترا شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ جہاں کچھ گوشوں نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے وہیں کچھ گوشوں کو مایوسی بھی ہوئی ہے ۔
کہا جا رہا ہے کہ پرشانت کشور سیاسی پارٹی قائم کرنے کے معاملے میں جلد بازی سے کام نہیں کریں گے بلکہ وہ محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ تاہم جس طرح سے انہوں نے پارٹی کے قیام سے فی الحال گریز کیا ہے اس سے یہ بھی اشارے مل رہے ہیں کہ ان کی اور کانگریس کی بات چیت بھی شائد بحال ہوسکتی ہے اور کانگریس پارٹی اپنے مسائل کو ختم کرنے کیلئے پرشانت کشور کی خدمات حاصل کرنے کے تعلق سے سنجیدگی سے غور کر رہی ہے ۔ ایسے میں پرشانت کشور اپنی علاقائی جماعت قائم کرتے ہوئے کانگریس کیلئے دروازے پوری طرح سے بند کردینا نہیں چاہتے ۔ سیاسی حلقوں میں تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پرشانت کشور نہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور نہ ہی وہ کانگریس کے تعلق سے زیادہ پرامید ہیں بلکہ وہ سیاسی جماعت قائم کرنے سے خوف محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ان کی امیج پر اثر پڑسکتا ہے ۔ جو جماعتیں ان کی خدمات حاصل کرنے کیلئے بے چین دکھائی دیتی ہیں وہی جماعتیں انہیں تنقیدوں کا نشانہ بنائیں گی ۔ اس کے علاوہ مختلف جماعتوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے سیاسی جماعت چلانے کی مشکلات کو محسوس کرچکے ہیں۔ انہیں سیاسی جماعتوں میں اندرونی طور پر پیش آنے والی مشکلات اور مصلحتوں کا بھی اندازہ ہے ایسے میں وہ خود پارٹی قائم کرتے ہوئے اپنے طور پر خوف کا شکار ہیں اور پد یاترا کرتے ہوئے پہلے وہ عوامی موڈ کا جائزہ لیں گے اس کے بعد ہی وہ سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پرشانت کشور نے کئی سیاسی جماعتوں کو انتخابات جیتنے کی حکمت عملی بنانے میں مدد کی ہے ۔ انہوں نے وسیع تجربہ بھی حاصل کرلیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی جماعت قائم کرنا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ غیر جانبدار رہتے ہوئے کسی جماعت کو مشورے دینا الگ کام ہے لیکن خود سیاسی جماعت چلانا اور اسے کامیابی تک پہونچانا آسان نہیں ہوسکتا ۔ پرشانت کشور کو اس کا شائد اندازہ ہے اسی لئے وہ سیاسی جماعت قائم کرنے کے تعلق سے پس و پیش کا شکار ہیں ۔ اس فیصلے میں جہاں مصلحت دکھائی دیتی ہے وہیں کچھ حد تک خوف کا عنصر بھی ضرور پایا جاتا ہے ۔