پرشانت کشور کی سیاسی جماعت

   

دنیا کے خداؤں سے جو مرعوب ہوئے ہیں
حق بات بھی کہنے کی جسارت نہیں کرتے
ملک بھر میں سیاسی حکمت عملی ساز کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے پرشانت کشور نے کئی سیاسی جماعتوں کی کامیابیوں میں اہم رول نبھایا ہے ۔ انہوں نے کئی جماعتوںکو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے میں مدد کروائی تھی ۔ ان کیلئے مہم بھی چلائی تھی ۔ ان کو قیمتی مشورے بھی دئے تھے ۔ گذشتہ چند مہینوںسے پرشانت کشور نے اس مصروفیت کو ترک کردیا ہے ۔ اب وہ خود سیاسی جماعت تشکیل دینے جا رہے ہیں۔ ویسے تو انہوں نے چند ماہ قبل ہی سے اپنے ارادے ظاہر کردئے تھے کہ وہ سیاسی جماعت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے سیاسی عزائم اس وقت بھی واضح ہوگئے تھے جب انہوں نے چیف منسٹر بہار نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹیڈ میںشمولیت اختیار کرلی تھی ۔ پارٹی کے نائب صدر بھی بنادئے گئے تھے ۔ تاہم انہوںنے نتیش کمار کے ساتھ زیادہ کچھ کام نہیں کیا اور پارٹی سے مستعفی ہوگئے تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی ایک تنظیم جن سواراج قائم کی تھی ۔ اس تنظیم کے ذریعہ ساری ریاست بہار میں انہوں نے دورے کئے اور عوام سے رابطے کئے تھے ۔ وہ عوام کا موڈ معلوم کرنے میں مصروف رہے تھے ۔ جاریہ سال کے اواخر تک بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں پرشانت کشور نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنی جن سواراج تنظیم کو سیاسی پارٹی کی شکل دینے والے ہیں۔ اس کیلئے انہوںنے گاندھی جینتی 2 اکٹوبر کی تاریخ بھی طئے کی ہے ۔ حالانکہ پرشانت کشور نے ابھی یہ واضح نہیں کیا ہے کہ ان کی سیاسی جماعت بہار اسمبلی کے آئندہ انتخابات میں مقابلہ کرے گی بھی یا نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی پارٹی کا بہار کے انتخابی منظر نامہ پر کچھ حد تک اثر ضرور پڑسکتا ہے ۔ جہاں تک پرشانت کشور کا تعلق ہے انہوں نے کئی جماعتوں کی انتخابی حکمت عملی تیار کی ہے اور ان کی کامیابیوں میں اہم رول نبھایا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا زیادہ تر جھکاؤ بی جے پی کی سمت محسوس کیا گیا ہے ۔ انہوں نے حالانکہ کانگریس کے ساتھ بھی کام کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی یہ کوشش کچھ آگے نہیں بڑھ سکی اور پرشانت کشور نے کانگریس سے دوری اختیار کرلی تھی ۔
پرشانت کشور نے لوک سبھا انتخابات سے قبل پیش قیاسی کی تھی کہ بی جے پی اپنے بل پر حکومت حاصل کرے گی اور اس کی نشستوں کی تعداد 300 سے زیادہ ہوسکتی ہے ۔ پرشانت کشور کے دونوں ہی تجزئے غلط ثابت ہوئے اور بی جے پی حالانکہ مرکز میں اقتدار پر فائز ضرور ہوئی ہے لیکن اسے اپنے بل پر سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہو پائی ہے ۔ تین سو نشستوں تک تو پہونچنا بہت دور کی بات رہ گئی ۔ اس کے علاوہ پرشانت کشور نے کانگریس کیلئے انتہائی ناقص مظاہرہ کی پیش قیاسی کی تھی اور یہ پیش قیاسی بھی بالکل بے بنیاد اور غلط ثابت ہوگئی ۔ کانگریس نے اپنی نشستوں کی تعداد تقریبا دوگنی کرلی ہے اور اسے عوام کی خاطر خواہ تائید و حمایت حاصل ہوئی ہے ۔ کانگریس کا وہ حشر نہیں ہوا جو پرشانت کشور کہہ رہے تھے کہ ہونے والا ہے ۔ اس اعتبارسے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پرشانت کشور اب عوام کی نبض کو زیادہ موثر ڈھنگ سے سمجھنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ انہیںاپنے ذہنی تحفظات کو ترک کرتے ہوئے عوام کی نبض کو سمجھنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیںہوا ہے اور ان کو اپنے اندازوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اب جبکہ ان کی ساری توجہ بہار پر مرکوز ہونے والی ہے تو یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ وہ بہار کے سیاسی منظر نامہ میں کچھ جگہ اپنے لئے ضرور بناسکتے ہیں۔ وہ کس حد تک بہار کی سیاست پر اثر انداز ہوسکتے ہیں یہ ابھی نہیںکہا جاسکتا ۔ اس کا اندازہ ابھی تو خود پرشانت کشور کو بھی ٹھیک طرح سے نہیں ہوا ہے ۔
جن سواراج تنظیم کی جانب سے اکٹوبر میںسیاسی پارٹی کے قیام تک بہار میں مختلف پروگرامس کرنے کا منصوبہ ہے جس کے ذریعہ عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ تاہم جہاں تک بہار کے سیاسی منظر نامہ کاسوال ہے تو یہ بہت ہی گنجلک ہے ۔ نتیش کمار کا اپنا حلقہ اثر ہے ۔ بی جے پی بھی ایک بڑی طاقت ہے ۔ آر جے ڈی اسمبلی انتخابات کیلئے عوام کی بہترین پسند ہوسکتی ہے ۔ کانگریس کا اپنا حلقہ اثر موجود ہے ۔ علاقائی جماعتیں بھی ہیں۔ ایسے میں پرشانت کشور بہاری ہونے کے باوجود بہار کے عوام کی تائید و حمایت حاصل کرپائیں گے بھی یا نہیں یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔