پرشانت کشور کے دعوے

   

ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیںگے جو کھلنے والے ہیں
جیسے جیسے بہار اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں اور ان کے دعوے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ بہار میں جہاں این ڈی اے کو اقتدار حاصل ہے وہیں مہا گٹھ بندھن کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے کیلئے جدوجہد شروع کردی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ مقامی سطح کی پارٹیاں بھی ہیں جو کسی نہ کسی اتحاد کا حصہ بنتے ہوئے اپنی سیاسی شناخت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہر جماعت اپنے اپنے طور پر رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے اور انہیں رجھانے اور راغب کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ایسے میں بہار میں نئی سیاسی جماعت بھی وجود میں آگئی ہے ۔ حالانکہ یہ گذشتہ چند مہینوں سے زمینی سطح پر کام کرنے کا دعوی کرتی رہی ہے تاہم گذشتہ تقریبا ایک مہینے سے میڈیا میں اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ جماعت سیاسی حکمت عملی کے ماہر سمجھے جانے والے پرشانت کشور کی ہے ۔ پرشانت کشور ملک کی کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کام کرچکے ہیں اور وہ نریندر مودی کو 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی دلانے میں سرگرم اور اہم رول ادا کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہار میں نتیش کمار کی پارٹی کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ممتابنرجی ‘ ایم کے اسٹالن ‘ چندرا بابو نائیڈو ‘ وائی ایس آر کانگریس اور دوسری جماعتوں کیلئے بھی انہوں نے کام کیا ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات سے قبل وہ کانگریس کے ساتھ بھی جڑتے دکھائی دئے تاہم ان کے ستارے کانگریس سے نہیں مل پائے اور پھر کانگریس اور پرشانت کشور ایک دوسرے سے دور ہوگئے ۔ اب پرشانت کشور بہار پر توجہ دے رہے ہیں اور وہاں انہوں نے جن سوراج کے نام سے اپنی ایک پارٹی قائم کرلی ہے ۔ وہ بہار میں اقتدار کی دعویداری کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سیاسی مخالفین کو اہمیت دینے تیار نہیں ہیں ۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیںاور یہ دعوے کر رہے ہیں کہ ان کی پارٹی بہار میں این ڈی اے اور انڈیا اتحاد دونوں ہی کو ختم کرکے ہی دم لے گی ۔ پرشانت کشور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے بعد نتیش کمار بہار کے چیف منسٹر نہیں رہیں گے ۔
جہاں تک پرشانت کشور کا سوال ہے تو کئی سیاسی جماعتیں ان کی سیاسی حکمت عملی کی قائل رہی ہیں۔ وہ مختلف جماعتوں کیلئے الگ الگ ریاستوںمیں کام کرچکے ہیں۔ جہاں تک حکمت عملی کی بات ہے تو یہ کسی دفتر میں بیٹھ کر ساتھیوں کی مدد اور مشورہ سے بنائی جاسکتی ہے اور اس میں مہارت بھی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ یہ کام پرشانت کشور نے کیا ہوا ہے ۔ تاہم جہاں تک اس حکمت عملی پر عمل آوری کرنے کی بات ہے تو یہ پرشانت کشور کیلئے بالکل پہلا تجربہ ہے ۔ انتخابی میدان کی صورتحال کو فوری طور پر سمجھنا اور اس کے مطابق اپنے کیڈر کو تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ وہ بھی بہار جیسی بڑی ریاست میں انتخابی میدان میں اقتدار کی دعویداری کے ساتھ قسمت آزمائی کرنا بڑا مشکل کام ہوسکتا ہے ۔ تاہم پرشانت کشور جس طرح سے کاغذ پر حکمت عملی اور منصوبے بناتے رہے ہیں اسی طرح عملا انتخابی میدان کی جنگ کو بھی آسان سمجھ رہے ہیں جو ان کی غلط فہمی ہوسکتی ہے ۔ پرشانت کشور بھی وہی طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں جو کسی وقت میں عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال نے اختیار کیا تھا ۔ وہ کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں ۔ ابتدائی وقتوں میں اروند کجریوال کے تیور بھی اسی طرح کے تھے اور وہ بڑی سے بڑی جماعت کی اہمیت کو تسلیم کرنے تیار نہیں تھے ۔ اروند کجریوال نے دو معیادوں کیلئے دہلی پر حکومت بھی کی ہے تاہم جہاں تک بہار کا سوال ہے تو بہار کی سیاست دہلی سے مختلف ہے اور دہلی سے بہت زیادہ حساس مسائل بہار میں موجود ہیں۔
حالانکہ پرشانت کشور این ڈی اے اور انڈیا اتحاد دونوں ہی کو نشانہ بنا رہے ہیں تاہم یہ شبہات سر ابھارنے لگے ہیں کہ ایک بار پھر حکمت عملی کی مہارت کا سہارا لیتے ہوئے پرشانت کشور بی جے پی کیلئے تو انتخابی میدان میں نہیں اتر رہے ہیں ؟ ۔ پرشانت کشور انتخابات کے بعد بی جے پی سے کسی طرح کی مفاہمت نہ کرنے کا بھی دعوی کر رہے ہیں لیکن انتخابات میں اگر وہ مہا گٹھ بندھن کی پیشرفت کو روکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی ذمہ داری پوری ہو جائے گی اور کسی سے اتحاد کی ضرورت ہی نہیں ہوگی ۔ ان کے بلند بانگ دعووں کو بہار کے عوام کس حد تک قبول کرینگے یہ انتخابی نتائج سے ہی واضح ہوگا ۔