پرویز مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ

   

پاکستان کے سابق صدر اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو غداری کے معاملہ میں سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا ۔ 2007 میں دستور کو معطل کرنے اور ایمرجنسی کے نفاذ کے الزامات کے تحت غداری کا سامنا کرنے والے مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ سنانے سے پاکستان میں سیول اور فوج کے درمیان کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے ۔ خصوصی عدالت کی 3 رکنی بنچ کے اس فیصلہ پر جس طرح کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ خطرناک ماحول بنانے کی تیاری ہورہی ہے ۔ کئی تنظیموں نے پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کے فیصلہ کو پہلی بار دستور کی بالادستی کے لیے عدالت کا تاریخی فیصلہ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس سے پاکستان میں جمہوریت محفوظ ہوگئی ۔ پاکستان میں جس کی حکومت ہوتی ہے اس کو ہر گوشے سے کھلی چھوٹ حاصل ہوتی ہے اور جب اقتدار چلا جاتا ہے تو اس پر الزامات کی بوچھاڑ ہوجاتی ہے ۔ مشرف پر بھی پاکستان کا آئین توڑنے ، ججس کو نظر بند کرنے آئین میں غیر قانونی ترامیم کرنے ، بطور فوجی سربراہ آئین کو معطل کرنے وغیرہ جیسے الزامات عائد کئے گئے ۔ جس کو عدالت میں ثابت ہونے کی دلیل کے ساتھ سزائے موت کا بھی اعلان کیا گیا ۔ مشرف اس وقت دوبئی میں مقیم ہیں ۔ پاکستان سے باہر کسی پاکستانی لیڈر کے خلاف سزاؤں کا اعلان کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ صدر مشرف کے معاملہ میں بات ذرا ہٹ کر ہے کیوں کہ وہ ایک فوجی سربراہ بھی رہ چکے ہیں تو عدالت کا یہ فیصلہ پاکستان میں سیول اور فوج کے درمیان تصادم کی نوبت لاسکتا ہے ۔ مشرف کو سزائے موت دینے کے عدالت کے فیصلہ پر پہلا ردعمل پاکستان کے فوجی کا سامنے آیا ہے جس نے شدید غم و غصہ کا بھی اظہار کیا ۔ فوج نے یہ اعتراف کیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے 40 سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی ہے ۔ پاکستان کی دفاع کے لیے جنگیں بھی لڑی ہیں ۔ وہ کسی صورت میں غدار نہیں ہوسکتے ۔ عدالت کا یہ فیصلہ پاکستان کے عام شہریوں اور با اثر تنظیموں کے قائدین کے لیے ایک بڑی راحت کا معاملہ قرار دیا جارہا ہے ۔ اس طرح پاکستان کی موجودہ صورت حال میں سابق صدر کے خلاف غداری کے مقدمہ کی یکسوئی کرتے ہوئے سزائے موت کے فیصلہ پر پہونچ جانا جلد بازی سے کام لیا گیا ہے ۔ انصاف کے حصول کے لیے ہر ملزم کو موقع دیا جاتا ہے مگر پرویز مشرف کے کیس میں ان کے وکلاء نے عدالت کے فیصلہ اور عدالتی کارروائی کے طریقہ کار میں بے شمار غلطیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران تمام اصولوں کو نظر انداز کردئیے جانے کی بھی شکایت کی گئی ہے ۔ اپوزیشن نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا گیا ہے ۔ اس فیصلہ نے پاکستان کے سیاسی قانونی اور قومی مفاد پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ تو آگے چل کر معلوم ہوگا ۔ مگر سیاسی تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس سے زیادہ شدید کیس بناکر پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ دیا گیا ۔ کسی بھی کیس میں قانونی پہلوؤں اور حقائق و شواہد کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوئے کارروائی ہوتی ہے ۔ وقت کا تقاضہ کیا ہے ۔ اس پر غور ہونا ضروری ہے ۔ پاکستان میں سیاسی گوشوں کی جانب سے پرویز مشرف کو کرپٹ قرار دیا جاسکتا ہے مگر فوج کے عہدیداروں نے سیاستدانوں کو ہی سب سے زیادہ کرپٹ قرار دیا ہے ۔ پرویز مشرف کے دفاع میں آنے والے فوجی عہدیداروں کو اور مخالفت میں رائے عامہ متحرک کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں اس مسئلہ کو متنازعہ نہ بنائیں ۔ عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کے معاملہ میں سزائے موت دی ہے تو اس کا جائزہ لینے کے لیے قانون داں موجود ہیں اور مشرف کے وکلاء کو عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے تو وہ قانونی پہلوؤں اور حقائق کا جائزہ لے کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں ۔