پرگتی بھون اور دارالسلام میں دوریاں … بڑھ گئیں

,

   

مجلس پر زیادہ اسمبلی نشستوں پر مقابلہ کیلئے دباؤ۔ مفاہمت کے مسئلہ پر ٹی ار ایس قائدین کی رائے بھی ایک نہیں
حیدرآباد/30 ستمبر ( سیاست نیوز ) سیاست میں کبھی کوئی کسی کا مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ ڈنکے کی چوٹ پر ایک دوسرے کی حلیف ہونے کا دعوی کرنے والی حکمران ٹی آر ایس اور مجلس کے درمیان گذرتے وقتی کے ساتھ دوریاں بڑھتی جارہی ہیں جو سیاسی حلقوں میں موضوع بحث ہیں ۔ بی جے پی کی جانب سے سیاسی ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ایک طرف نظام دور حکومت کی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ دوسری طرف بی جے پی کے گلی سے دہلی تک کے قائدین حیدرآباد کے علاوہ تلنگانہ کے مختلف اضلاع کا دورہ کرکے رضاکاروں کو مجلس سے اور مجلس کو ٹی آر ایس سے جوڑ کر پیش کر رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں ٹی آر ایس کے کار کی اسٹیرنگ صدر مجلس اسد الدین اویسی کے ہاتھ میں ہونے کا دعوی کیا جارہا ہے جس سے اکثریتی طبقہ میں ٹی آر ایس کی امیج خراج ہو رہی ہے ۔ ٹی آر ایس قائدین بھی پارٹی حلقوں میں مجلس سے مفاہمت کے مسئلہ پر منقسم رائے رکھتے ہیں ۔ چند قائدین مجلس سے خفیہ مفاہمت کی تائید کر رہے ہیں چند قائدین مخالفت کر رہے ۔ ٹی آر ایس کے چند قائدین کا دعوی ہے کہ مجلس سے مفاہمت کے باعث پارلیمانی حلقوں نظام آباد ، عادل آباد اور کریم نگر میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ مفاہمت کے باوجود سکندرآباد حلقہ لوک سبھا میں ٹی آر ایس کو مجلس کی تائید حاصل نہیں ہوئی بالخصوص اسمبلی حلقہ جات نامپلی اور جوبلی ہلز میں توقع کے مطابق ووٹ نہیں ملے ۔ 2014 میں ٹی آر ایس نے تنہا مقابلہ کیا تھا تاہم 2018 میں مجلس سے انتخابی مفاہمت کی تھی اور ایک دوسرے کے حلیف ہونے کا دعوی کیا تھا ۔ جی ایچ ایم سی انتخابات میں بھی دونوں نے مفاہمت کی تھی ۔ بی جے پی کی جانب سے اس کو عوام کے سامنے آشکار کرنے کے بعد کے ٹی آر نے بظاہر اس کی تردید کی تھی ۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ اس مرتبہ مجلس پر بھی دباؤ ہے کہ زیادہ اسمبلی حلقوں پر مقابلہ کیا جائے ۔ حیدرآباد ، سکندرآباد کے علاوہ مضافاتی علاقوں ، اضلاع نظام آباد ، عادل آباد ، کریم نگر کے علاوہ دوسرے مسلم غلبہ والے حلقوں پر مقابلہ کا دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ نظام آباد اور کریم نگر کے میونسپل کارپوریشن پر مجلس کا اثر ہے ۔ بھینسہ میں بھی مجلس کی مضبوط پکڑ ہے ۔ واضح رہے کہ چیف منسٹر کے سی آر نے جب قومی سیاست میں قدم رکھنے اور قومی پارٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تو سب سے پہلے صدر مجلس اسد اویسی نے کے سی آر کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور ضرورت پڑنے پر کے سی آر کے ساتھ ملک کے دورہ کا اعلان کیا۔ مگر ٹی آر ایس قیادت نے اسد اویسی کی پیشکش پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ حالیہ دنوں میں کے سی آر نے قومی سیاست میں اہم رول ادا کرنے اور ہمخیال جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے دہلی اور مختلف ریاستوں کا دورہ کیا ۔ کچھ قائدین سے ملاقات کی اور مختلف قائدین کو حیدرآباد طلب کرکے تبادلہ خیال کیا ۔ مگر کے سی آر کے فیصلے کی تائید کرنے والے صدر مجلس اسدالدین اویسی نظر انداز کیا گیا ۔ انہیں پرگتی بھون طلب نہیں کیا گیا جبکہ پرگتی بھون اور دارالسلام کے مابین بمشکل سے 10 کیلومیٹر کا فاصلہ بھی نہیں ہے ۔ چیف منسٹر نے اپنے دورہ مہاراشٹرا کے موقع پر فلم اسٹار پرکاش راج کو ساتھ رکھا مگر پیشکش کے باوجود اسد اویسی کو اپنے قافلے میں شامل نہیں کیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ پرگتی بھون اور دارالسلام میں دوریاں بڑھ گئی ہیں ۔ ن