پرینکا گاندھی کے انتخابی مقابلہ کا امکان

   

شرافت کا اگر باقی ہے کچھ ہندوستاں میں خون
تو دل کو اس سے رہنا چاہئے ہمارا ممنون
حالیہ اسمبلی انتخابات میں محض تلنگانہ میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد کانگریس پارٹی نے آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے اپنی تیاریوں کا آعاز کردیا ہے ۔ کئی ریاستوںک ے پارٹی انچارج جنرل سکریٹریز کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے ۔ کئی سکریٹریز کو تبدیل کردیا گیا ہے ۔ کئی کی ذمہ داریوں کو تبدیل کیا گیا ہے ۔ کسی کو ذمہ داریوں سے براء ت بھی دیدی گئی ہے ۔ اہم ریاستوں کے تعلق سے جو فیصلے کئے گئے ہیں ان پر سیاسی حلقوں میں کافی تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ ملک میں اترپردیش سب سے اہم سیاسی ریاست سمجھی جاتی ہے ۔ یہیں سے سب سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ دہلی میں اقتدار کا راستہ اترپردیش سے گذر کر ہی جاتا ہے ۔ اترپردیش میں کانگریس امور کی ذمہ داری پرینکا گاندھی کو دی گئی تھی ۔ ان کے ساتھ جیوتر آدتیہ سندھیا بھی ذمہ دار تھے ۔ سندھیا نے کانگریس سے ترک تعلق کرکے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور اب وہ مرکزی وزیر ہیں۔ اب پرینکا گاندھی کو اترپردیش کی ذمہ داری سے بری کردیا گیا ہے ۔ ایسے میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ پرینکا گاندھی واڈرا کو اترپردیش سے کانگریس پارٹی امیدوار بناسکتی ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اترپردیش کی بجائے تلنگانہ سے پرینکا گاندھی کسی حلقہ سے کانگریس امیدوار ہوسکتی ہیں۔ اس طرح یہ اشارے ضرور ملنے لگے ہیں کہ پرینکا گاندھی انتخابی مقابلہ کرسکتی ہیں۔ اب یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ انہیں کس ریاست سے انتخابی میدان میں اتارا جاسکتا ہے ۔ جس طرح شمالی ہند میں اترپردیش اہمیت کی حامل ریاست ہے اسی طرح کانگریس کیلئے جنوبی ہند میں تلنگانہ بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ تلنگانہ میں کانگریس نے ابھی اسمبلی انتخابات جیتے ہیں ۔ ایسے میں اگر انہیں تلنگانہ سے انتخابی میدان میںا تارا جاتا ہے تو پارٹی کو امید ہے کہ اس سے انتخابی امکانات بڑھ جائیں گے ۔ جہاں تک تلنگانہ کانگریس کا سوال ہے تو اس نے سابق صدر سونیا گاندھی کو تلنگانہ سے مقابلہ کی دعوت دی ہے ۔ کانگریس کا احساس ہے کہ تشکیل تلنگانہ میں سونیا گاندھی کے اہم رول کی وجہ سے انہیں یہاں سے مقابلہ کرنا چاہئے ۔
سیاسی حلقوں میں جو قیاس آرائیاں چل رہی ہیں ان کے مطابق پرینکا گاندھی کو شمالی ہند کی بجائے جنوب سے مقابلہ کیلئے موقع دیا جانا زیادہ بہتر ہوسکتا ہے ۔ پرینکا گاندھی اگر تلنگانہ سے مقابلہ کرتی ہیں تو جنوب میں دو اہم قائدین کا مقابلہ ہوگا ۔ راہول گاندھی پہلے ہی کیرالا میں وائیناڈ سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ ان کے اسی حلقہ سے دوبارہ مقابلہ کا بھی امکان ہے ۔ اس کے علاوہ اگر پرینکا گاندھی تلنگانہ میں کسی حلقہ سے مقابلہ کرسکتی ہیں تو اس کے اثرات سارے جنوبی ہند کے پارلیمانی انتخابات پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ سونیا گاندھی اگر اترپردیش ہی میں رائے بریلی سے مقابلہ کرتی ہیں تو اس سے شمال اور جنوب کا توازن بھی برقرار رہ سکتا ہے ۔ پرینکا گاندھی اترپردیش میں انتخابی مہم میں سرگرمی سے حصہ لے سکتی ہیں۔ تلنگانہ میں ان کی اپنی انتخابی مہم کانگریس قائدین پوری ذمہ داری اور جوش و خروش سے چلا سکتے ہیں۔ یہ تاثر بھی عام ہونے لگا ہے کہ کانگریس کی جو ساکھ ہے اگر اس کو بتدریج بحال کیا جانا ہے تو پھر پرینکا گاندھی کو بھی انتخابی میدان میں کودنا ہی پڑے گا ۔ اب تک وہ پارٹی کی ذمہ داریاں نبھاتی رہی ہیں۔ انتخابی مہم میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے تاہم وہ انتخابی مقابلہ سے دور ہیں۔ اگر وہ بھی انتخابی مقابلہ میں کود پڑتی ہیں تو اس سے کانگریس کارکنوں اور کیڈر میں بھی مزید جوش و خروش پیدا ہوگا ۔ اس سے جنوبی ہند میں بی جے پی کو روکنے اور کانگریس کیلئے زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔
کانگریس پارٹی نے جو انتخابی حکمت عملی تیار کی ہے اس کی تفصیل ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہے تاہم سیاسی حلقوں کی قیاس آرائیوں میں یہ بات تقریبا طئے نظر آتی ہے کہ پرینکا گاندھی اب پارلیمانی انتخابات میں ضرور حصہ لیں گی ۔ انہیں چاہے تلنگانہ سے امیدوار بنایا جائے یا پھر اترپردیش سے موقع دیا اس کے پارٹی کیڈر کے حوصلے بلند کرنے پر اثرات ضرور مرتب ہونگے اور پارٹی کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں بھی مقابلہ سے مدد مل سکتی ہے ۔ پارٹی حکمت عملی کے مطابق انہیں کس حلقہ سے اور کس ریاست سے مقابلہ کروایا جانا چاہئے یہ فیصلہ بھی پارٹی کو جلد ہی کرنا چاہئے تاکہ اس کی مناسب اور موثر تشہیر کو بھی یقینی بنایا جاسکے ۔