پسماندہ مسلمان وزیراعظم کا نیا شوشہ

   

منی شنکر ایّر
حال ہی میں تاریخی شہر حیدرآباد میں بی جے پی کی مجلس قومی عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیراعظم نے غیرہندو برادریوں میں محروم اور پسماندہ طبقات کا حوالہ دیا جن میں پسماندہ مسلمان بھی شامل ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی کا80% تا 85% حصہ ہیں چونکہ مساوات پیغمبر اسلام کا انتہائی اہم پیغام ہے، لیکن ہندوستان میں ہندوانہ رسم و رواج کا اثر مسلمانوں پر بہت زیادہ پڑا ہے اور اس کی وجوہات بھی ہیں۔ اکثر یہ بھی تاثر پایا جاتا ہے کہ ہندو ،مسلم جبر کا نشانہ بنے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندو رسم رواج و روایات ان کے استعمال اور اقدار کے اثرات ہندوستانی مسلمانوں پر بہت زیادہ مرتب ہوئے جس کا اندازہ مسلم آبادی میں پسماندہ مسلمانوں کی بڑی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان پسماندہ مسلمانوں کے آباء و اجداد ہندو تھے۔ وہ ہندو جو ہندوازم میں پائے جانے والے ذات پات کے نظام کے نتیجہ میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنے اور ذات پات و نسلی امتیاز کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے ان لوگوں نے دامن اسلام میں پناہ لی۔ اگرچہ یہ عام طور پر مشترکہ اعلیٰ ثقافتی طریقوں یا پریکٹس کی مثالیں ہیں جنہیں مجھ جیسے سکیولر بنیاد پرستوں نے ہندو اور مسلم شاعری، ادب پکوان (ذائقوں) اور روحانیت کے باہمی تعلق کو واضح کرنے کیلئے پیش کیا ہے لیکن انتہائی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے عنصر سے زیادہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ذات پات کا نظام ہندو برادری کا سب سے ظالمانہ عمل تھا جس نے ہزار سالہ ہندو۔ مسلم تصادم میں مسلمانوں کیلئے وسیع نتیجہ برآمد کیا۔
جیسا کہ 2015ء کی سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا اور مسلم کمیونٹی کو تین وسیع زمرہ میں تقسیم کیا گیا۔ اشرافیہ، اجلاف اور ارزال جہاں تک اشرافیہ کا تعلق ہے۔ ان میں (زیادہ تر بیرونی نسل یا اعلیٰ ذات کے ہندوؤں سے اپنا مذہب تبدیل کرکے مسلمان بننے افراد یا خاندان) ہے۔ اجلاف (پیشے کے لحاظ سے یہ ہندو او بی سیز کے برابر ہیں) اور ارزال (ان کی پہلی مرتبہ 1901ء کی مردم شماری اچھوتوں کے طور پر نشاندہی کی گئی)، اجلاف اور ارزال کو فارسی کے لفظ پسماندہ کے طور پر جانا جاتا ہے جس کے معنی پیچھے رہ جانے والے ہوتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ آٹھویں صدی میں آدی شنکرا کے بعد ہندو مذہب میں جو سب سے بڑی پیشرفت ہوتی ہے۔ وہ بھکتی تحریک تھی جو 6 صدیوں کے مسلم حکمرانی کے دوران رامانوجو چاریہ سے لے کر رامانند اور رامانند سے لے کر سنت تکارام شنکر دیو، کرشنا چیتنیہ روی داس، کبیر اور میرابائی اور اس کے بعد سکھ ازم کے دس گرووں تک چلی گئی اور ان لوگوں نے ذات پات کی بنیاد پر عدم تفریق کی وکالت کی اور اس کے ذریعہ ہندو مذہب کے روایتی سماجی طریقوں کو اسلام کے انقلابی، اخلاقی اصولوں خاص طور پر مساوات کے ساتھ ملایا۔ قرآن پاک سے لے کر گرو گرنتھ صاحب تک ایک ہزار سال پر محیط ان کوششوں کے باوجود تمام ہندوستانی مذاہب خواہ وہ مقامی ہوں یا غیرملکی ذات پات یا اس کے تغیرات کا شکار ہوئے۔
اگرچہ 19 ویں صدی کے اوائل سے ہی بڑے پیمانے پر شروع کردہ سماجی اصلاحات نے ہندوستان کا چہرہ بدل دیا ہے۔ یہاں کی سماجی حقیقت نے آزاد ہندوستان میں تمام حکومتوں کو چاہے وہ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ہوں، انہیں زمینی حقائق کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ذات پات کی تقسیم صرف ہند مذہب میں ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ذات پات کی تقسیم تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے تو ہم اصلاحات کے ایسے آلات وضع کرسکتے ہیں جو تمام مذہبی برادریوں پر مشتمل ہوں لیکن آئین کے ساتھ جڑا ہوا متعلقہ شیڈول صرف ہندو درج فہرست طبقات و قبائل جیسے زمروں کو تسلیم کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست بہار اور آندھرا پردیش کی جگن موہن ریڈی حکومت کچھ غیر ہندو کمزور طبقات کیلئے ذیلی کوٹہ پیش کرتی ہیں لیکن ایک قوم کے طور پر ہم فراموش کردیتے ہیں کہ دستور میں “C” کا مطلب او بی سی سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ ’’ذات‘‘ کیلئے نہیں بلکہ طبقات کیلئے ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خرابی کو وہ لوگ ہرگز دور نہیں کرسکتے جو 1200 سال کے ظلم و جبر جیسے غلط نظریات اور تصورات کا پروپگنڈہ کرتے ہیں چنانچہ وزیراعظم کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ جن پسماندہ مسلمانوں کی بات کررہے ہیں، وہ پہلے مسلمان ہیں، اس کے بعد پسماندہ ہیں۔