پنجاب ‘ بی جے پی کیلئے نوشتہ دیوار ؟

   

ہوئی ہے ان کے سنورنے میں اسقدر تاخیر
اجل کے ساتھ جدائی کی رات آئی ہے

پنجاب ‘ بی جے پی کیلئے نوشتہ دیوار ؟
پنجاب میں مجالس مقامی کے انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں وہ بی جے پی کیلئے نوشتہ دیوار سے کم نہیں ہیں۔ یہاں بی جے پی کا عملا صفایا ہوچکا ہے ۔ کسی بھی مقام پر بی جے پی کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ مرکز کے تین متنازعہ قوانین اور کسان احتجاج کا نتیجہ ہے ۔ کسانوں کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے پنجاب کے عوام نے بی جے پی کو اپنے ووٹ سے محروم کردیا اور کانگریس کی کھل کر تائید کی ہے جس کے نتیجہ میں بی جے پی کا مجالس مقامی انتخابات میں عملا صفایا ہوگیا ہے ۔ جس طرح سے مرکزی حکومت ملک کو چلا رہی ہے اور من مانی انداز میں فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ نت نئے طریقے اختیار کرتے ہوئے حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس نے سارے ملک کے عوام میں ایک طرح کی بے چینی پیدا کردی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پنجاب کے عوام کو اپنی ناراضگی اور بے چینی کے اظہار کا موقع ملا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں کہیں حکومت کے خلاف منظم انداز میں احتجاج چلایا جائے اور رائے عامہ ہموار کی جائے وہاں حکومت کو عوامی غیض و غضب کا لازما سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ پنجاب سے یہی پیام ملا ہے کہ حکومت کے خلاف اگر آواز بلند کرنی ہے تو پہلے اپوزیشن کی صفوںمیں استحکام ہوناضروری ہے اور منظم انداز میں تحریک چلائی جاتی ہے تو پھر اس کے نتائج بھی یقینی طور پر حوصلہ افزاء برآمد ہوسکتے ہیں۔ پنجاب سے قبل راجستھان میں بھی کانگریس کو شاندار کامیابی ملی تھی ۔ حالانکہ بی جے پی کو یہاں بھی شکست ہوئی تھی لیکن یہ شکست پنجاب کی طرح کراری نہیں تھی ۔ پنجابی عوام نے اپنے غم و غصہ کا جس شدت کے ساتھ اظہار کیا ہے وہ حکومت کیلئے نوشتہ دیوار سے کم نہیں ہے اور حکومت کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے ۔ حکومت کو اس نتیجہ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اسے اپنی ترجیحات اور پروگراموں پر نظرثانی کرتے ہوئے از سر نو غور و خوض کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو یہ احساس لازما ہونا چاہئے کہ وہ من مانی انداز میں فیصلے کرتے ہوئے ملک کے عوام پر بزور طاقت مسلط نہیں کرسکتی ۔
پنجاب کے ووٹرس نے حالانکہ مجالس مقامی انتخابات ہی میں اپنی رائے ظاہر کی ہے لیکن انہوں نے ایسی رائے ظاہر کی ہے جس کا احساس قومی سطح تک بھی ہو سکتا ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ اس تعلق سے سارے ملک میں واضح تشہیر کی جائے اور یہ احساس دلایا جائے کہ بی جے پی کو شکست دینا ناممکن نہیں ہے ۔ بی جے پی بھی جو طاقتور ہوئی ہے وہ عوام کے ووٹ سے ہی ہوئی ہے اور عوام کے ہاتھ میں آج بھی یہ اختیار ہے کہ وہ بی جے پی کو کمزور بھی کرسکتے ہیں۔ جس طرح کئی دہوں تک ملک پر حکومت کرنے والی کانگریس کو ملک کے عوام نے اپنے ووٹ سے حاشیہ پر کردیا تھا اسی طرح کا حشر وہ بی جے پی کا بھی کرسکتے ہیں۔ مرکز کی بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت اکثریت کے زعم میں کسی بھی مخالفانہ رائے کو خاطر میں لانے تیار نہیں تھی ۔ حکومت اپنے مٹھی بھر حاشیہ بردار کارپوریٹس کو فائدہ پہونچانے کیلئے ملک کے اثاثہ جات کا سودا کر رہی ہے ۔ جو قومی اثاثے گذشتہ سات دہوں میں تیار کئے گئے تھے ان کو سات سال کے عرصہ میں اپنے حاشیہ بردار کارپوریٹ دوستوں کو فروخت کردیا گیا ہے ۔جو ادارے بچے ہوئے ہیں انہیں بھی فروخت کرنے کی تیاریاں زور و شور سے شروع کردی گئی ہیں۔ خود نیتی آیوگ کا کہنا ہے کہ ایسی عوامی شعبہ کی کمپنیوں کی فہرست تیار کی جا رہی ہے جن میں سرمایہ نکاسی کی جائیگی ۔ اس کا مطلب یہی ہوا ہے کہ یہ ادارے اب بی جے پی کے دوست کارپوریٹ تاجروں کے حوالے کردئے جائیں گے ۔
اب جبکہ پنجاب کے عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ بی جے پی کو یہ احساس کروادیا ہے کہ وہ جسے چاہیں اقتدار کی کرسی سونپ سکتے ہیں تو جب چاہے کسی کے پیروں کے نیچے سے زمین بھی کھینچ سکتے ہیں۔ ملک بھر میں عوام کو یہ احساس کروانے کی ضرورت ہے کہ طاقت حکومت کی نہیں ہوتی بلکہ عوام کی ہوتی ہے اور عوام کے ہاتھ میں ہماری جمہوریت نے ووٹ کی جو طاقت کی ہے اگر اس کا سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے حالات چاہے کتنے بھی دگرگوں اور خراب نہ ہوجائیں انہیں بدلا جاسکتا ہے ۔ کسی مثبت اور بہتر تبدیلی کیلئے عوام کا ووٹ ہی ایک انتہائی کارگر اورموثر ہتھیار ہے اور اس حقیقت کو بی جے پی کو جلد سمجھ لینا چاہئے ۔