پنجاب میں عآپ اور یوپی میں بھاجپا

,

   

روش کمار
یہ ایسے الیکشن رہے کہ جو اکثر غلط ہورہے تھے، وہ صحیح ہوگئے۔ ان کے غلط ہونے کی تاریخ اتنی طویل اور ’’حال ‘‘ فی الحال کا تھا۔ ان کے صحیح ہونے پر ان کا خوش ہونا لازمی تھا۔ میں ایگزٹ پول والوں کی بات کررہا ہوں۔ 12 ایگزٹ پولس میں اترپردیش جیسی ملک کی بڑی ریاست میں بی جے پی کی کامیابی کی پیش قیاسی کردی گئی تھی۔ شاید یہ پہلی بار ہوا ہے کہ سبھی 12 ایگزٹ پولس صحیح ثابت ہوئے۔ نمبر کے معاملے میں بھلے کوئی آگے پیچھے رہ گیا ہو، لیکن یوپی کے معاملے میں جیت کے اعداد و شمار کو لے کر درجن ایگزٹ پول والے جیت گئے ہیں۔ انتخابات میں لگتا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ ایگزٹ پول نے بھی Anti Incumbancy کا مقابلہ کیا ہے۔ اس بات کی پوری امید ہے کہ اگلے انتخابات میں غلط ہونے تک انہیں کافی سنجیدگی سے لیا جائے گا اور اگر پھر صحیح ہوگئے تو اس کے اگلے انتخابات تک بڑی جیت کے سامنے مسائل کے ختم ہوجانے کی پیش قیاسی سے ابھی بچئے کیونکہ مسئلے ختم نہیں ہوتے۔ یوپی میں یوگی کی اس تاریخی کامیابی کے بعد 2024ء میں وہ عہدۂ وزارت عظمیٰ کے دعوے دار ہوسکتے ہیں یا کسی کیلئے چیلنج کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ ایسی پیش قیاسیوں سے کچھ عرصہ کیلئے محفوظ رہئے۔ اس ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی نے کہا ہے کہ وہ 2024ء کا الیکشن نہیں لڑیں گے۔ صفحات بھرنے والی پیش قیاسیوں سے وقت کی بربادی ہوتی ہے۔ پیش قیاسیاں کچھ بھی ہوسکتی ہیں لیکن کم سے کم اس کیلئے آج کا دن نہیں ہے۔ آپ یاد کیجئے کہ 2021ء میں مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے بی جے پی کو بھاری شکست دی تب یہ پیش قیاسی کی جانے لگی کہ 2024ء کیلئے عہدۂ وزارت عظمیٰ کا ممتا بنرجی چہرہ ہے۔ کانگریس بھی ہار گئی۔ اب یوپی اور پنجاب کے نتائج کے سامنے مغربی بنگال کو بھلا دیا گیا ہے۔ ہم نے ممتا کی کہانی فی الوقت اس لئے یاد دلائی تاکہ آپ پیش قیاسیوں کے بہاؤ میں نہ بہہ جائیں۔ اس وقت ممتا کے 2024ء میں عہدۂ وزارت عظمیٰ کا چہرہ ہونے کو لے کر بے شمار مضامین لکھے گئے مضامین وہی ہیں، بس ان میں سے ممتا کا نام ہٹاکر کجریوال اور یوگی کے نام لکھ کر مضامین کی سپلائی ہورہی ہے۔ 2024ء میں چہرہ تلاش کرنے والے اس قدر زیادہ تلاش کررہے ہیں کہ نہ صرف اپوزیشن بلکہ بی جے پی میں بھی یہ چہرہ تلاش کررہے ہیں۔ اس طرح چہرہ کو تلاش کرنے والوں سے دور رہئے۔ ویسے گزشتہ ماہ اروند کجریوال نے کہہ دیا تھا کہ وہ 2024ء کا چہرہ نہیں ہیں لیکن ان کی پارٹی نے پنجاب میں بھاری جیت کے بعد پہلے ردعمل میں اپوزیشن میں پہلے نمبر پر ہونے کا دعویٰ ضرور کیا۔ ٹھیک یہی بات ممتا بنرجی کررہی تھیں۔ عام آدمی پارٹی نے پنجاب میں کمال کردیا لیکن اتراکھنڈ اور گوا میں اس کے عہدۂ چیف منسٹری کے امیدوار بھی شکست کھا گئے۔ سیاسی پیش قیاسیوں کو اکثر چہرہ کے اس پاس رکھنے سے کام آسان ہوجاتا ہے۔ اس سے جن کا چہرہ ہوتا ہے ان کی خدمت بھی ہوجاتی ہے اور چہرہ چہرہ کرنے والوں کا چہرہ بھی چمک جاتا ہے۔ آپ اس چہرہ کو بھی نہیں جانتے جنہوں نے پنجاب کے چیف منسٹر چرنجیت سنگھ چنی کو ہرا دیا۔ اس طرح ایک اور سابق چیف منسٹر راجندر کور الیکشن ہار گئیں۔ پنجاب میں چرنجیت سنگھ چنی کو ہرانے والے لابھ سنگھ اگرچہ 35 سال کے ہیں اور بارہویں کامیاب ہیں، ان کے والد ڈرائیور ہیں جبکہ ماں سرکاری اسکول میں جاروب کش ہیں، وہ موبائیل ریپیرنگ کی دُکان چلاتے ہیں۔ پنجاب میں ’’ہیوی ویٹ‘‘ لفظ جس کیلئے مخصوص تھا، وہ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی لائٹ ویٹ ہوکر ہوا میں تیر رہے ہیں۔ میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والی جیون جیوت کور نے نوجوت سنگھ سدھو اور مجیٹیا کو ہرا دیا ہے۔ اُتراکھنڈ میں چیف منسٹر کے امیدوار اور بی جے پی کا چہرہ پشکر سنگھ الیکشن ہار گئے ہیں اور چیف منسٹر بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں، ہریش راوت بھی ہار گئے ہیں۔ اس لئے 2024ء کا چہرہ تلاش کرنے کے بجائے 2022ء میں جو چہرے غائب ہوگئے، ان پر نظر رکھنی چاہئے تاکہ سیاست کو کچھ امید اور کچھ حوصلے سے دیکھا جاسکے۔ سیاست امکانات کی سیڑھی ہے۔ گرکر بھی اسی پر چڑھنا ہوتا ہے اور چڑھ کر پھر اس سے پھسلنے کا امکان ہوتا ہے۔ پنجاب میں سیاست کی رشتہ داریاں اسی طرح گہری ہوئیں تھیں کہ سمدھی کانگریس اور بیٹا اکالی دل میں تھا۔ یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ کونسی بس کس پارٹی کی ہے۔ پیسے سے ووٹ خریدنے کا حوصلہ رکھنے والے کئی سیاسی رہنماؤں کے پیسے ڈوب گئے۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے کانگریس، اکالی دل اور بی جے پی کو نہیں ہرایا بلکہ ان جماعتوں میں برسوں سے اہم قائدین بنے بیٹھے عناصر کو بھی صاف کردیا، کیا یہ امید کا وقت نہیں ہے کہ اب کبھی کوئی چاہے تو پیسے والے کو ہرا سکتا ہے۔ بھلے ہی عام آدمی پارٹی کی طرح کے کئی امیدوار دوسری ریاستوں میں ہار گئے ہوں۔ پنجاب کے ہی لوگ کہتے تھے کہ عام آدمی پارٹی نظر نہیں آتی، مطلب پارٹی نہیں ہے۔ لوگ نہیں ہیں، کارکن نہیں ہیں، رہنما نہیں ہیں۔ یہ باتیں کچھ حد تک صحیح ہوسکتی ہیں لیکن پارٹی اب دفتر سے نہیں جانی جاتی ہے اور نہ ہی وہاں سے چلتی ہے۔ دفتر اب پارٹی کا ٹھکانہ نہیں رہا جن جماعتوں کے دفاتر تھے۔ ان جماعتوں کا کیا حال ہوا ہے۔