پنجاب کانگریس کا بحران اب اپنے منطقی انجام تک پہونچنے والا ہے ۔ کئی ماہ سے جاری رسہ کشی اور مخالفت کے دوران چیف منسٹر کی حیثیت سے کیپٹن امریندر سنگھ نے اپنے عہدہ سے استعفی پیش کردیا ہے ۔ کل سے پنجاب کانگریس میں اچانک سرگرمیاں تیز ہو گئی تھیں اور کانگریس کے ارکان اسمبلی کا کل رات دیر گئے اجلاس طلب کیا گیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سی ایل پی لیڈر چیف منسٹر امریندر سنگھ کی علم و اطلاع کے بغیر یہ اجلاس طلب کیا گیا تھا جس پر کیپٹن نے ناراضگی ظاہر کی اور آج صبح انہوں نے استعفی پیش کردیا ۔ وہ سیدھے راج بھون پہونچے اور اپنا استعفی گورنر کے حوالے کردیا ۔ بعدازاں انہوں نے کہا کہ کانگریس قیادت کی جانب سے گذشتہ دو ماہ میں تین مرتبہ ان کی ہتک کی گئی ہے اور انہوں نے پارٹی لیڈر سونیا گاندھی سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنے استعفی کی اطلاع دیدی ہے ۔ کیپٹن کا کہنا تھا کہ اب کانگریس پارٹی جس پر بھروسہ کرسکتی ہے اسے چیف منسٹر بناسکتی ہے ۔ انہوں نے واضح انداز میں یہ بھی کہدیا کہ وہ نا اہل نوجوت سنگھ سدھو کو بحیثیت چیف منسٹر قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔ امریندر سنگھ کے جو تیور تھے وہ کانگریس کیلئے اچھے نہیں کہے جاسکتے کیونکہ انہوں نے اپنے سامنے تمام امکانات موجود ہونے کا اشارہ دیا ہے اور کہا کہ وہ وقت آنے پر اس کا استعمال کریں گے ۔ اس طرح انہوں نے علیحدہ پارٹی کے قیام کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے ۔ کیپٹن امریندر سنگھ نے آج اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کچھ ارکان اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تھا جس میںچار وزیروں سمیت 15 ارکان نے شرکت کی ۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ ان کے مخالف ارکان اسمبلی کی تعداد 50 سے زائد ہے ۔ اس طرح کیپٹن کو خود اپنے ارکان اسمبلی کی تائید حاصل نہیں رہی جس کے بعد صورتحال کو بھانپتے ہوئے انہوں نے اپنے عہدہ سے استعفی پیش کردیا ہے ۔ یہ ساری صورتحال خود کانگریس کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ اس کیلئے کانگریس کو فوری حرکت میں آتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ زیادہ ٹال مٹول یا پھر تاخیر سے کانگریس کو انتخابات میں نقصان ہوسکتا ہے جس کیلئے چند ماہ کا وقت ہی باقی رہ گیا ہے ۔
کیپٹن امریندر سنگھ کے فرزند نے بھی ریاست میں ایک نئی جماعت کے قیام کا اشارہ دیا ہے ۔ انہوں نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ انہیں فخر ہے کہ وہ اپنے والد کے ساتھ راج بھون گئے تھے ۔ وہ اپنے والد کے ساتھ ہیں تاکہ وہ اپنے خاندان کو ایک نئی شروعات فراہم کرسکیں۔ کانگریس کے کچھ گوشوں کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی نے حوصلہ مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے کیپٹن کو حاشیہ پر کردینے کا تہئیہ کیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں بحیثیت کانگریس چیف منسٹر امریندر سنگھ کا رویہ تبدیل ہوچکا تھا اور انہیںبرقرار رکھا نہیںجاسکتا ۔ ان کی برقراری سے پارٹی کے دوسرے ارکان اسمبلی ناراض تھے ۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ تقریبا 50 سے زائد ارکان اسمبلی نے مکتوب روانہ کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے خواہش کی تھی کہ کیپٹن کو بدل دیا جائے ۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ کیپٹن امریندر سنگھ نے استعفی پیش کردینے پارٹی قیادت کے احکام پر بھی مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی جس کے بعدبحران کے مزید شدت اختیار کرجانے کے اندیشے بھی ہیں۔ نئے چیف منسٹر کے انتخاب کیلئے سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں تاہم یہ اندیشے ضرور برقرار ہیں کہ کیپٹن امریندر سنگھ اس مسئلہ پر کانگریس چھوڑ سکتے ہیں اور وہ اپنی نئی علاقائی جماعت کے قیام کا بھی اعلان کرسکتے ہیں۔ خود کیپٹن کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تو کانگریس میں ہیں لیکن ان کے سامنے کئی امکانات موجود ہیں اور وقت آنے پر وہ کسی امکان کو اختیار کرسکتے ہیں۔ اس طرح کانگریس کیلئے امریندر سنگھ کی علیحدگی مسئلہ ضرور بن سکتی ہے ۔
اب جبکہ امریندر سنگھ نے بالآخر استعفی پیش کردیا ہے اور وہ کانگریس قیادت پر ناراضگی کا اظہار بھی کرچکے ہیں ایسے میں اب ریاست میں پارٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے اور بحران کو ختم کرتے ہوئے انتخابات کا سامنا کرنے کیلئے تیاریاں کرنے کی ذمہ داری پارٹی کی مرکزی قیادت پر عائد ہوجاتی ہے ۔ اگر فی الواقعی راہول گاندھی نے امریندر سنگھ کی علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے تو انہیں ایک موثر اور طاقتور متبادل پیش کرنے میں بھی آگے رہنا چاہئے تاکہ انتخابات میں پارٹی کے امکانات متاثر ہونے نہ پائیں۔ ریاست میں اپوزیشن جماعتوں کی حالت فی الحال مستحکم نہیں کہی جاسکتی ۔ اکالی ۔ بی جے پی اتحاد کے ختم ہونے سے صورتحال مختلف تھی تاہم کانگریس کے داخلی بحران کی وجہ سے اپوزیشن کیلئے مواقع دستیاب ہوسکتے ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پارٹی قیادت کو پ وری سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
بنگال میں بی جے پی کو ایک اور جھٹکا
مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں تمام تر کوشش کے باوجود شکست کھانے والی بی جے پی کو ریاست میں مسلسل جھٹکے لگتے جا رہے ہیں۔ یکے بعد دیگر کچھ ارکان اسمبلی پہلے ہی ترنمول میں واپسی کرچکے ہیں۔ سینئر لیڈر مکل رائے نے بھی ممتابنرجی کی پارٹی سے دوبارہ وابستگی اختیار کرلی ہے اور اب سابق مرکزی وزیر و بی جے پی اصل چہرہ سمجھے جانے والے بابل سپریو نے بھی ترنمول کانگریس کا پرچم تھام لیا ہے ۔ بابل سپریو کو دو ماہ قبل ہی مرکزی وزارت سے علیحدہ کردیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے سیاست سے علیحدگی کا بھی ارادہ ظاہر کیا تھا تاہم اب انہوں نے ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ کو جب کبھی مواقع دستیاب ہوں ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور فیصلہ کرنا چاہئے ۔ بنگال میں جس وقت سے بی جے پی نے انتخابات میں شکست کھائی ہے اس کے بعد سے مسلسل پارٹی کو جھٹکے لگتے جا رہے ہیں۔ ان قائدین اور ارکان اسمبلی و پارلیمنٹ میں ترنمول کانگریس میں واپسی سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے تمام قائدین کو صرف اقتدار کا لالچ دیتے ہوئے اپنی صفوں میںشامل کیا تھا لیکن اقتدار نہ ملنے پر یہی لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ بی جے پی نے بنگال سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ پوری نہیں ہو پائی ہیں اور اسے توقعات کے برعکس صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ غیر منطقی اور غیر نظریاتی وابستگی کا یہی حال ہونا طئے ہوتا ہے لیکن یہ بات بی جے پی کو تاخیر سے بھی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے ۔ بنگال میں جو کچھ ہوتا جا رہا ہے وہی طریقہ بی جے پی نے ملک کی دوسری ریاستوں میں خود اختیار کیا تھا لیکن اب اسے اسی تجربہ سے بنگال میں گذرنا پڑ رہا ہے ۔ اس صورتحال سے بی جے پی کو خود بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ صرف پروپگنڈہ اور تشہیر کی بنیاد پر ہر ریاست میں کامیابی نہیں مل سکتی ۔
