پنجاب کانگریس کی نئی اننگز

   

ایک طویل رسہ کشی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پنجاب کانگریس میں بظاہر اب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوچکا ہے ۔ پنجاب پردیش کانگریس صدر کی حیثیت سے نوجوت سنگھ سدھو کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے اور چیف منسٹر کیپٹن امریندر سنگھ نے سدھو کی ذمہ داری سنبھالنے کی تقریب میںشرکت کرتے ہوئے اپنی جانب سے بھی صلح کا اشارہ دیا ہے ۔ خود نوجوت سنگھ سدھو نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ تمام کانگریس ورکرس کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور کسی انانیت کا شکار نہیں ہونگے ۔ سیاست میں انا پرستی بہت سنگین مسئلہ ہے اور اس کے نتیجہ میں قائدین پارٹی کارکنوں سے دور ہوجاتے ہیں اور عوام سے دوری بھی اس کا نتیجہ ہوتی ہے اور پھر حکومتیں اور پارٹیاں عوام کی تائید سے محروم ہوجاتی ہیں۔ پنجاب کانگریس میں ایک طویل وقت سے رسہ کشی چل رہی تھی ۔ نوجوت سنگھ سدھو کے چیف منسٹر امریندر سنگھ کے ساتھ اختلافات چل رہے تھے ۔ وہ راست حکومت اور چیف منسٹر پر تنقیدوں سے بھی گریز نہیں کر رہے تھے ۔ خود کیپٹن امریندر سنگھ بھی سدھو کو پنجاب پردیش کانگریس کا صدر نامزد کئے جانے کی مخالفت کر رہے تھے اور تقرر کیلئے کچھ شرائط بھی عائد کر رہے تھے تاہم سبھی اختلافات اور رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے کانگریس قیادت نے ایک فارمولا تیار کیا تھا جس کے تحت کیپٹن امریندر سنگھ کو چیف منسٹر برقرار رکھتے ہوئے سدھو کو پردیش کانگریس کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ سدھو کی ذمہ داری سنبھالنے کی تقریب میں یہ کوشش کی گئی کہ تمام قائدین میں اتحاد کا پیام دیا جائے ۔ کانگریس کی ریاستی یونٹ میں اتحاد اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آئندہ سال کے اوائل میں ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ حالانکہ ریاست میں کانگریس کا موقف مستحکم ہی نظر آتا ہے لیکن آپسی خلفشار اور اختلافات کی وجہ سے پارٹی کی ساکھ کے ساتھ ساتھ حکومت کا امیج بھی متاثر ہو رہا تھا ۔ کانگریس قیادت نے صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے مداخلت کی اور اپنے طورپر سبھی کیلئے قابل قبول فارمولا پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسی فارمولے کے تحت سدھو کو پردیش کانگریس کی صدارت سونپی گئی ہے ۔

جس طرح سدھو کی افتتاحی تقریب میںاتحاد کا مظاہر ہ کیا گیا اور ایک مثبت پیام دینے کی کوشش کی گئی ہے اسی سلسلہ کو آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے ۔ جب تک تمام قائدین میں اور تمام گروپ میں حقیقی معنوں میں اتحاد نہیں ہوجاتا اس وقت تک کانگریس کیلئے آئندہ اسمبلی انتخابات کا کامیابی کے ساتھ سامنا کرنا آسان نہیں رہ جائے گا ۔ کانگریس کو ریاست میں اقتدار کو برقرا رکھنے کے مقصد سے کام کرنا ہے ۔ ریاست میں بی جے پی ۔ شرومنی اکالی دل اتحاد ٹوٹ چکا ہے ۔ دونوں جماعتیں تنہا مقابلہ کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کے موقف میں نظر نہیں آتیں۔ جہاں تک عام آدمی پارٹی کا سوال ہے اس نے ابھی سے اپنی تیاریاںشروع کردی ہیں۔ ریاست میں بہوجن سماج پارٹی بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس صورتحال میں مختلف جماعتوں کے مابین اتحاد اگر ہوتا ہے تو کانگریس کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو ہوں یا پھر کیپٹن امریندر سنگھ ہوں سبھی کو ذاتی انا کو پس پشت ڈالتے ہوئے پارٹی اور حکومت کے حق میں حالات کو سازگار کرنے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوامی گوشوں میں مثبت اور متحدہ پیام دیتے ہوئے ہی کانگریس دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ کانگریس کا ریاست میں دوبارہ اقتدار آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے اہمیت کا حامل ہوگا ۔ اس طرح پنجاب کے انتخابات قومی سیاست پر بھی لازمی طور پر اپنا اثر ضرور چھوڑ سکتے ہیں۔
سدھو نے کیپٹن امریندر سنگھ سے اختلافات کے وقت میں جو مسائل اٹھائے تھے اور حکومت پر جو تنقیدیں کی تھیں ان مسائل پر دونوں کو مل کر کام کرنا چاہئے ۔ حکومت کے پاس اب بھی کچھ وقت ہے کہ وہ عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک جٹ ہو کر کام کریں۔ سدھو بھی حکومت کے اور پارٹی کے استحکام کیلئے چیف منسٹر کو تجاویز پیش کریں۔ چیف منسٹر بھی انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مثبت اور اچھی تجاویز کا استقبال کریں۔ حکمرانی میں ان کو جگہ دی جائے ۔ دونوںکو مشترکہ ایجنڈہ تیار کرتے ہوئے متحدہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور اسی طرح سے ریاست میں کانگریس اقتدار کو برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔