کہیں کسی کو میسر نہیں ہے لقمہ بھی
کہیں پہ یوں ہے کہ کھل کر حرام چل رہا ہے
ویسے تو ایک طویل وقت سے یہ تاثر عام ہے کہ ہندوستان کے کئی اہم افراد نے بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔ اپنی دولت انہوں نے ایسے ممالک میں چھپائی ہوئی ہے جہاں راز کو راز رکھا جاتا ہے اور انہیں ٹیکس کی ادائیگی سے راحت ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ بیرونی ممالک اور وہاں کی فرضی کمپنیوں میں وہی دولت استعمال کی جاتی ہے جو غیر قانونی ذرائع اور غلط طریقوں سے حاصل کی جاتی ہے ۔ کئی برسوں سے یہ دعوی کئے جاتے رہے ہیں کہ سوئیز بینکوں میں بے شمار ہندوستانیوں نے غیر قانونی پیسہ چھپا کر رکھا ہے ۔ ان میں اکثریت سیاسی قائدین کی ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ بڑے تاجرین ‘ بعض بدعنوان عہدیدار اور فلمی شخصیتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ بی جے پی نے 2014 میںمرکز میں اقتدار حاصل کرنے سے قبل انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ اسے اقتدار مل جائے تو بیرونی ممالک میںرکھے گئے کالے دھن کو واپس لایا جائیگا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسی فنڈ سے ہر ہندوستان کو پندرہ لاکھ روپئے دینے کا اعلان بھی کیا تھا ۔ تاہم کسی بھی حکومت نے اب تک اس مسئلہ پر سنجیدگی سے کوئی کارروائی نہیں کی ہے ۔ بی جے پی نے بھی اس معاملے کو برفدان کی نذر کردیا ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ کو یکسر ہی فراموش کردیا ہے ۔ مختلف گوشے اگرچیکہ وقفہ وقفہ سے اس کی یاد دہانی کرواتے ہیں لیکن حکومت اس پر خاموش ہی ہے ۔ کالا دھن واپس لانا تو دور کی بات ہے حکومت نے سوئیز بینک کھاتے رکھنے والے افراد کے نام تک ظاہر کرنے سے انکار کردیا ہے اور کہا کہ یہ دو حکومتوں کے درمیان راز ہے ۔ اس سے حکومت کی نیت میں کھوٹ ظاہر ہوتا ہے ۔ اب کچھ نئے انکشافات آئے ہیں۔ پنڈورا پیپرس کے نام سے تحقیقاتی صحافت کے ذریعہ یہ حقائق منظر عام پر لائے گئے ہیں جن میں ملک کی معروف اور ذی اثر شخصیات کے نام بھی شامل ہے اور یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ان افراد نے بیرونی ممالک میں کئی کمپنیوں میں یا تو سرمایہ کاری کر رکھی ہے یا خود کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں۔ ان میں صنعتکار ‘ سیاستدان ‘ کارپوریٹس ‘ کرکٹر اور دوسرے افراد بھی شامل ہیں ۔
مرکزی حکومت نے ان پنڈورا پیپرس کے منظر عام پر آجانے کے بعد حسب ضابطہ اعلان کردیا ہے کہ مرکزی بورڈ برائے راست محاصل کے ذریعہ اس معاملے کی تحقیقات کروائی جائیں گی ۔ حکومت کی جانب سے تحقیقات کے اعلان کا مطلب بالواسطہ طور پر اس معاملے کو بھی برفدان کی نذر کردئے جانے کے مترادف ہی ہے ۔ مرکزی حکومت کے کئی معاملات میں تحقیقات کے اعلان نے سارے مسئلہ ہی کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ گذشتہ مہینوں میں پیگاسیس جاسوسی مسئلہ کا افشاء ہوا تھا ۔ انتہائی سنگین نوعیت کے اس مسئلہ پر بھی حکومت نے محض دو جملوں پر مبنی بیان جاری کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی تھی ۔ عدالت میں بھی تفصیل بتانے سے حکومت نے گریز کیا ہوا ہے ۔ اس طرح حکومت اہمیت کے حامل امور پر ملک کے عوام ہی کو تفصیل بتانے سے گریز کر رہی ہے اور اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنے حاشیہ برداروں کو فائدہ پہونچانے میں مصروف ہے ۔ پنڈورا پیپرس میں انیل امبانی کا نام بھی سامنے آیا ہے جو ریلائنس کمیونیکیشن کے مالک ہیں۔ انیل نے ہندوستان میں ہزاروں کروڑ روپئے قرض لیا تھا اور انہوں نے اپنے آپ کو دیوالیہ اور کنگال قرار دیدیا ۔ اس کے باوجود بیرونی ممالک کی فرضی اور جعلی کمپنیوں میں ان کے کروڑہا ڈالرس کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں قرضہ جات کو ہڑپ کرتے ہوئے اور محاصل و ٹیکسیس سے بچتے ہوئے ذاتی دولت اکٹھی کرنے پر ہی توجہ دی جا رہی ہے ۔
پنڈورا پیپرس کے ذریعہ جو انکشافات ہوئے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو ایسے افراد کے خلاف کسی وابستگی کا خیال کئے بغیر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف اعلان کرتے ہوئے مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹانے سے ملک کا نقصان ہی ہوگا ۔ حکومت کو سوئیز بینکوں میں کھاتے رکھنے والے ہندوستانی شہریوں کے ناموں کا بھی انکشاف کرنا چاہئے ۔ جو لوگ ملک کی دولت کو بیرونی ممالک میں رکھے ہوئے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے تاکہ دوسروں کو اس طرح کے ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ کالے دھن کو بیرونی ممالک کو منتقل کرنے کا موقع نہ مل سکے اور حکومت کی سنجیدگی کا بھی ثبوت مل سکے ۔
