پولیس انکاونٹر اور قانون

   

زمانہ کروٹیں سی لے رہا ہے
مگر ہم ہَیں کہ آنکھیں مَل رہے ہیں
پولیس انکاونٹر اور قانون
مجرموں کو سزا دینے کے لیے قوانین ہیں اور پولیس و قانون کے رکھوالوں کے درمیان کا فاصلہ ہو یا عدالتوں کی کارروائی کا وقفہ اس میں حصول انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر کارروائی کی جاتی ہے ۔ حالیہ برسوں میں ہندوستان کے اندر جرائم اور جرائم پیشہ افراد کا مسئلہ نازک رخ اختیار کرلیا ہے ۔ ایسے کئی کیس ہیں جو عدالتوں میں سڑ رہے ہیں ۔ ایسے کئی مجرمین ہیں جو جیلوں میں محروسی کے دن گذارتے ہوئے اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہوتے ہیں ۔ ایسے واقعات اور قوانین کی پیچیدگیوں کے درمیان اگر کسی مجرم کو براہ راست سزا دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس پر بحث چھڑ جاتی ہے ۔ سماج و قانون کا ٹکراؤ پیدا کردیا جاتا ہے ۔ خواتین کے خلاف مظالم ، اغواء ، عصمت ریزی اور قتل کے مرتکب افراد کو سخت سے سخت سزا دینے کی وکالت کرتے ہوئے مقدمات کی کارروائیوں میں برسوں گذار دئیے جاتے ہیں ۔ ہر گذرتے دن ملک کے اندر سنگین واقعات میں اضافہ کوئی نئی بات نہیں رہی لیکن نربھئے قانون اس کے بعد حیدرآباد میں ایک وٹرنری ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور زندہ جلا دینے کی گھناونی حرکت نے سارے ملک کو ایک آواز ہوتے دیکھا گیا ۔ ہر کوئی خاطیوں کو سخت ترین سزا اور بروقت پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے نظر آرہا تھا ۔ حکومت نے خصوصی فاسٹ ٹریک کورٹس کے ذریعہ مقدمہ کی کارروائی کا حکم دیا تھا ۔ وٹرنری ڈاکٹر کے چار خاطیوں کو پولیس تحویل میں دے کر اس کیس کی جانچ شروع کردی گئی سب کچھ قانون کے مطابق کام ہورہا تھا لیکن پولیس نے تحقیقات اور جائے واردات پر جرم کے پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے چار ملزمین کو ساتھ لے کر برسر موقع جانچ کررہی تھی ۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس جانچ کے دوران چار ملزمین پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے اس لیے انہیں انکاونٹر کے ذریعہ ہلاک کردینا پڑا ۔ حیدرآباد پولیس کی اس کارروائی کی مختلف گوشوں سے ستائش کی جانے لگی ۔ عوام نے خوشی کا اظہار کر کے پولیس ملازمین کو کندھوں پر اٹھالیا ۔ میٹھائیاں تقسیم کیں ۔ مجرموں کو اس طرح کی درد ناک سزا دینے پر بعض انسانی حقوق اداروں نے پولیس کارروائی کی مذمت کی ۔ بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر مایاوتی نے حیدرآباد پولیس کی ستائش کی اور اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کی کارکردگی پر تنقید کی کہ یو پی میں خواتین کے خلاف مظالم پر خاموشی اختیار کرنے کے نتیجہ میں ہی اناؤ عصمت ریزی کا شکار لڑکی کو گواہی دینے سے روکنے کے لیے زندہ جلانے کی کوشش کی گئی ۔ یو پی کی پولیس اور دہلی کی پولیس کو حیدرآباد کی پولیس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ حیدرآباد کی پولیس کی اس کارروائی کی جہاں ایک طرف ستائش کی جارہی ہے وہیں اس ملک کے انسانی حقوق تنظیموں اور اداروں نے جو سوال اٹھائے ہیں اس کا درست جواب کس کے پاس ہوگا ۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں خواتین کی عصمت ریزی کے گھناونے واقعات میں اضافہ کو نظر انداز کرنے والے بی جے پی قائدین نے حیدرآباد کے ڈاکٹر کی موت پر بہت شور مچایا تھا ۔ اب ان چار ملزمین کا انکاونٹر کر کے کام تمام کردیا گیا تو بی جے پی کے کٹر پسندوں نے اس کارروائی کی ستائش کی ہے ۔ بی جے پی کی خاتون لیڈر اوما بھارتی کو اس کیس سے کافی دلچسپی دکھائی دی ۔ انہوں نے انکاونٹر کرنے والے پولیس عہدیداروں کو تہنیت پیش کرنے کا مطالبہ کیا ۔ اگر قانون کے رکھوالوں نے مجرموں کو بروقت سزا دینے کا فیصلہ کرلیا ہے تو مجرموں کو سبق ضرور ملے گا ۔ مینکا گاندھی اور ششی تھرور کو اس انکاونٹر پر اعتراض ہے ۔ جو بھی ہوا اس دیش کے لیے بہت ہی بھیانک ہوا ہے ۔ اب ملک میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ پولیس قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ۔ مجرمین کو کسی بھی صورت میں اس طرح کی سزا نہیں دی جاسکتی ۔ اس کے لیے عدالتیں ہیں ۔ عدالت و قانون کی رو سے ملزمین کو سزائے موت دینے کی جب گنجائش ہے تو پھر انکاونٹر کے ذریعہ سزا دیتے ہوئے پولیس نے خاطیوں کے لیے حصول انصاف کی گنجائش سے محروم کردیا ۔ مناسب قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ گنہگاروں کو انصاف کے کٹہرے تک لے جانے میں ناکام رہی ۔۔