پکوان گیس کی قیمتیں

   

Ferty9 Clinic

ملک بھر میں پکوان گیس کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا گیا ہے ۔ ویسے تو گذشتہ سات برسوں میں پکوان گیس اور پٹرولیم اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن گذشتہ تقریبا دو سال کے عرصہ میں پکوان گیس کی قیمت میں فی سلینڈر 300 روپئے سے زائد کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ بین الاقوامی مارکٹوں میں خام تیل کی قیمتوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ بعض مواقع پر تو قیمتوں میں کمی بھی آئی ہے لیکن ہندوستان میں حکومت نے اس کمی کے فوائد عوام اور صارفین کو منتقل کرنے کی بجائے سرکاری خزانہ بھر نے کو ترجیح دی ۔ مسلسل عوام پر بوجھ عائد کیا جاتا رہا ہے ۔ ہر چند دن بعد پکوان گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ پٹرول اورڈیزل کی قیمت میں بھی تقریبا روزآنہ تبدیلی ہو رہی ہے ۔ کبھی کبھار معمولی سی کمی آتی ہے لیکن مسلسل اضافہ کرتے ہوئے کئی روپئے فی لیٹر کا اضـافہ کردیا گیا ہے ۔ ملک میں پہلی بار پٹرول کی قیمت 100 روپئے فی لیٹر کے پار ہوگئی ہے اور ڈیزل بھی کسی بھی وقت 100 کے پار ہوسکتا ہے ۔ پکوان گیس ایسا لگتا ہے کہ سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بتدریج 1000 روپئے فی سلینڈر کے نشانہ کو پار کر جائے گی ۔ حکومت کی جانب سے خاموشی سے آئیل کمپنیوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر عوام کو ٹھگا جا رہا ہے ۔ تیل کمپنیوں کو تو حکومت نے قیمتوں کے تعین کا اختیار دیا ہے لیکن مسلسل اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوئے حکومت اپنا خزانہ بھرتی جا رہی ہے ۔ کئی مواقع پر حکومت نے اکسائز ڈیوٹی اور دیگر محاصل میں اضافہ کیا ہے ۔ اس کیلئے کوئی تیل کمپنی یا بین الاقوامی مارکٹ کی قیمتیں ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ خود حکومت ہی راست طور پر ذمہ دار ہے ۔ حکومت عوام کو راحت پہونچانے ‘ انہیں سہولیات فراہم کرنے کی بجائے ان سے لوٹ کر اپنا خزانہ بھر رہی ہے اور سرکاری خزانہ کی رقومات کو حکومت کے حاشیہ بردار مٹھی بھر کارپوریٹس کو مراعات فراہم کرنے کیلئے خرچ کیا جا رہا ہے ۔ کئی کارپوریٹ تاجر ہزاروں کروڑ روپئے کا قرض لے کر ملک سے فرار ہوچکے ہیں ۔ حکومت ان سے عوام کا پیسہ واپس لینے کی بجائے الٹا اس نقصان کو عوام ہی سے پورا کر رہی ہے ۔
حکومت عوام سے پہلی ہی سے کئی طرح کے محاصل وصول کرتی ہے ۔ انکم ٹیکس کے نام پر بھاری رقم لی جاتی ہے ۔ پروفیشنل ٹیکس لیا جاتا ہے ۔ ملک میں ماچس سے لے کر ٹوتھ پیسٹ ‘ ادویات سے لے کر دو دھ اور بائیک سے لے کر لگژری کاروں تک کی خریدی پر الگ الگ ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے ذریعہ عوام کو ٹھگنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ کارپوریٹس سے وصولی کرنے کی بجائے راحتیں دی جا رہی ہیں۔ عوام کیلئے پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن وہ کہاں جاتا ہے کسی کو آج تک پتہ نہیں چل سکا ہے اور نہ ہی حکومت نے اس کی تفصیل سے عوام کو واقف کروایا ہے ۔ صنعتی شعبہ میں نئی جان ڈالنے کیلئے نت نئے پیاکیجس دئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود صنعتی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا ہے اور صنعتی شعبہ میں ملازمتیں فراہم کرنے کی بجائے موجودہ ملازمتوں کو کم سے کم کیا جا رہا ہے ۔ حکومت صنعتوں کو بھی فروغ دے ‘ انہیں بھی سہولیات فراہم کرے لیکن عوام کو لوٹ کر ایسا نہیں کیا جانا چاہئے ۔عام آدمی دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے ۔ ملازمتیں نہیں مل پا رہی ہیں۔ مسلسل مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ۔ جو روزگار تھے وہ بھی تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ صحت اور تعلیم عوام کیلئے مہنگی ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں عوام کو راحت دینے کی بجائے پٹرولیم اشیا اور پکوان گیس کی قیمتوں کے ذریعہ عوام کی رہی سہی سکت کو بھی ختم کیا جا رہا ہے اور ان کی کمر توڑی جا رہی ہے ۔ اس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے ۔
حکومت کا استدلال ہے کہ پٹرولیم اشیا پر وصول کئے جانے والے محاصل کے ذریعہ غریبوں کو راشن اور کورونا ٹیکے مفت دئے جا رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر کورونا کے نام پر قائم کردہ پی ایم کئیر فنڈ کا پیسہ کہاں گیا ۔ کیا ہمارے مالدار کارپوریٹس عوام کیلئے ٹیکے فراہم نہیں کرسکتے ؟ ۔ کیا حکومت اتنی کنگال ہوگئی ہے کہ عوام سے ہزاروں روپئے لوٹ کر چند روپئے کا اناج مفت فراہم کرنے کا احسان کرے ؟ ۔ حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام پر مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ کا جو بوجھ عائد کیا جا رہا ہے اس کو روکا جائے ۔ عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے انہیں راحت پہونچائی جائے اور قیمتوں پر قابو کیا جائے ۔