ان کو صدمہ سا مجھ کو حیرت سی
آئینہ بن گئی ہے یکجائی
ملک بھر میں ایسا لگتا ہے کہ کورونا کی صورتحال ایک بار پھر قابو سے باہر ہوسکتی ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں اس کے مطابق 46 اضلاع ملک بھر میں ایسے ہیں جن میں یا تو کورونا کے کیسوں میںا ضافہ ہورہا ہے یا پھر ان میں مثبت پائے جانے کی شرح بڑھ گئی ہے ۔ مرکزی حکومت نے ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ ابھی سے سخت ترین تحدیدات عائد کرنے پر غور کرے تاکہ صورتحال کو قابو سے باہر ہونے سے بچایا جاسکے ۔ مرکزی حکومت کی یہ ہدایات سارے ملک کیلئے ہیں اور یہ انتہائی چونکا دینے والی بھی کہی جاسکتی ہیں۔ ابھی ملک کے عوام کورونا کی صورتحال سے نمٹنے کے بعد قدرے راحت کی سانس لے رہے تھے ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے اور محکمہ صحت کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ کورونا کی دوسری لہر کا قہر ختم ہونے کو ہے اور تیسری لہر کے بھی جو اندیشے تھے وہ ستمبر کے اواخر یا پھر اکٹوبر کے اوائل میں ہوسکتے تھے تاہم ابھی سے ملک کی دس ریاستوں میں کورونا کے کیسوں میں اضافہ ہونے لگا ہے اور مرکزی حکومت نے ابھی سے چوکسی کا الارم بجا دیا ہے ۔ مرکزی حکومت کو جو اندیشے لاحق ہیں انہیں کو دیکھتے ہوئے ریاستوں سے کہا گیا ہے کہ وہ حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کیلئے ابھی سے سخت ترین تحدیدات عائد کرنے پر غور کرے ۔ جن 46 اضلاع میں کورونا کیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے ان میں مہاراشٹرا ‘ کیرالا ‘ کرناٹک ‘ ٹاملناڈو ‘ اوڈیشہ ‘ آسام ‘ میزورم ‘ میگھالیہ‘ آندھرا پردیش اور منی پور شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں یا تو یومیہ کورونا کیس بڑھ گئے ہیں یا پھر انفیکشن کی شرح بڑھ گئی ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس پر سارے عوام کو چوکس ہوجانے کی ضرورت ہے ۔ آج چند اضلاع اور کچھ ریاستوں میں حالات خراب ہو رہے ہیں لیکن اگر احتیاط نہیں برتی گئی تو پھر جو اندیشے ہیں ان کے مطابق حالات سارے ملک میں بگڑ سکتے ہیں ۔ حالات کو قابو سے باہر ہونے سے بچانے کیلئے ہر ایک کو اپنے طور پر احتیاط اور چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ احتیاط جہاں دوسروں کیلئے ضروری ہے وہیں خود اپنے آپ کیلئے بھی اس کی اہمیت ہے ۔
حالانکہ ان ریاستوں میں محکمہ صحت کے حکام کی جانب سے صورتحال پر نظر رکھی جا رہی ہے ‘ وائرس پر قابو اپنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور متاثرین کے علاج پر بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے تاہم ریاستوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے طور پر بھی سروے کرواتے رہیں اور صورتحال پر نظر رکھیں تاکہ کسی ہنگامی صورتحال کی نوبت نہ آنے پائے ۔ ملک بھر کے عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ دوسری لہر کے دوران جو صورتحال پیدا ہوئی تھی اس نے سارے ملک میں قیامت صغری کی کیفیت پیدا کردی تھی ۔ آکسیجن کی قلت کی وجہ سے سینکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے ۔ دواخانوں میں بستروں کی قلت پیدا ہوگئی تھی ۔ لوگ اپنے رشتہ داروں کو تڑپتے دیکھ رہے تھے لیکن کچھ کرنے سے قاصر تھے ۔ حکومتوں کی جانب سے محض زبانی جمع خرچ پر اکتفاء کیا گیا ۔ حقیقی معنوں میں عوام کو کوئی راحت یا امداد فراہم نہیں کی گئی ۔ ساری صورتحال کا عوام کو خود اپنے طور پر سامنا کرنا پڑا تھا ۔ لاکھوں روپئے دواخانوں میں خرچ کرنے کے باوجود بھی اپنوں کو بچایا نہیں جاسکا تھا ۔ خانگی دواخانوں نے انتہائی شدید بحران کے وقت میں بھی علاج کی بجائے تجارت کا راستہ اختیار کیا تھا ۔ حکومت نہ سرکاری دواخانوں میں موثر سہولیات فراہم کرسکی اور نہ ہی خانگی دواخانوں پر کوئی لگام کسا جاسکا تھا ۔ ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ملک کے عوام ہی کو چاہئے کہ وہ اپنی مدد آپ کے اصول کو پیش نظر رکھیں اور حالات قابو سے باہر ہونے سے قبل چوکسی اختیار کرلیں۔
آج جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق ملک بھر میں 46 اضلاع ایسے ہیں جہاں کورونا کے کیس بڑھ رہے ہیں یا پھر پازیٹیو ہونے کی شرح بڑھ گئی ہے ۔ اس کے علاوہ مزید 53 اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں صورتحال بگڑسکتی ہے ۔ یہاں انفیکشن کی شرح 5 تا 10 فیصد کے درمیان ہوگئی ہے اور یہ کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مشکلات اور پریشانیاںعوام ہی کو لاحق ہونگی اور عوام ہی اس سے متاثر ہونگے ۔سماجی فاصلہ کی برقراری ہو یا پھر قوت مدافعت میں اضافہ ہو ‘ سینیٹائزرس کا استعمال ہو یا پھر ماسک لگانا ہو سبھی طرح کی احتیاط کو لازمی برقرار رکھا جانا چاہئے اور بھیڑ بھاڑ کے مقامات سے پھر ایک بار خود کو دور رکھنا چاہئے تاکہ وائرس کو روکنے میں میں اپنا بھی حصہ ادا کیا جاسکے ۔
بنگال بی جے پی ‘ ایک اور جھٹکا
مغربی بنگال میں بزور طاقت اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کیلئے صورتحال مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے ۔ جہاں اقتدار حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد ترنمول کانگریس سے ترک تعلق کرکے بی جے پی میں شامل ہوئے کئی اہم قائدین نے گھر واپسی کرلی ہے اور مزید کئی قائدین گھر واپسی کیلئے بے چین ہیں وہیں ترنمول کانگریس کے کٹر ناقدین میں شامل بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر بابل سپریو نے بھی سرگرم سیاست سے دوری اختیار کرلینے کا اعلان کیا ہے ۔ بابل سپریو کو مرکزی وزیر رہتے ہوئے بنگال اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کروایا گیا تھا لیکن وہ ناکام رہے اور پھر حالیہ مرکزی کابینی رد وبدل میں انہیں وزارت سے بھی محروم کردیا گیا تھا ۔ ساری صورتحال سے مایوس ہوکر سپریو نے بی جے پی سے ترک تعلق کا اعلان کیا ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ وہ کسی بھی پارٹی میں شامل نہیں ہو رہے ہیں۔ وہ چاہے کسی پارٹی میں شامل ہوں یا نہ ہوں لیکن بی جے پی سے ان کی دوری پارٹی کیلئے ایک اورجھٹکے کے مترادف ہے ۔ ابھی تک پارٹی مابعد انتخابات جھٹکوں سے متاثر ہی ہے اور کئی قائدین نے اس سے ترک تعلق کرلیا ہے ۔ اب سپریم کی دوری بھی بی جے پی کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے اور پارٹی کیڈر کے حوصلے پست ہونگے۔
