پھر نہرو اور اندرا گاندھی پر الزام

   

پھر تیری کہانی یاد آئی، پھر تیرا فسانہ یاد آیا
پھر آج ہماری آنکھوں کو ایک خواب پُرانا یاد آیا
ملک کی پارلیمنٹ میں دستور ہند پر مباحث ہوئے ۔ اپوزیشن جماعتوں اور برسر اقتدار جماعت کے ارکان نے اس پر ایوان میں اظہار خیال کیا ۔ کچھ ارکان نے جہاں حکومت پر دستور کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تو کچھ ارکان نے حکومت کی مدافعت بھی کی ۔ کچھ ارکان نے حکومت کی جانب سے دستور میں تبدیلیوں اور دستور بدلنے کی کوششوں پر تنقید کی تو کچھ نے کسی اور طرح کا اظہار خیال کیا ۔ تاہم ان سارے مباحث پر وزیر اعظم نریندر مودی نے آج ایوان میں بیان دیا اور انہوں نے سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ملک میں ہر مسئلہ اور ہر کمی کیلئے پنڈت نہرو کو ذمہ دار قرار دینے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو پر الزام عائد کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ پنڈت نہرو نے دستور میں تبدیلی کی بات کی تھی اور اسی سلسلہ کو اندرا گاندھی نے آگے بڑھایا تھا ۔ انہوں نے اس سلسلہ میںایمرجنسی کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے دستور کی دھجیاں اڑائی تھیں۔ کسی بھی ملک میں حکومتوں کو مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ماضی کے واقعات کو محض اپنی اصلاح کیلئے سامنے رکھا جاتا ہے تاکہ مستقبل کے منصوبوں میں کسی طرح کی کوئی غلطی نہ ہونے پائے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی حکومت اپنی کسی بھی ناکامی کو قبول کرنے تیار نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے منصوبوں پر ایوان میں یا ایوان کے باہر کسی طرح کے مباحث کروانا چاہتی ہے ۔ ملک میں بے شمار مسائل موجود ہیں اور مودی حکومت نے ہمیشہ ہی ان مسائل کیلئے پنڈت نہرو کو ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ پنڈت نہرو کا دور حکومت ختم ہوئے کئی دہے گذر چکے ہیں اور گذشتہ گیارہ برس سے خود نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اس کے باوجود اپنی حکومت کی ناکامیوں یا کامیابیوں کا تذکرہ کرنے کی بجائے سارے مسائل کیلئے نہرو کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں جو ایک ذمہ دار وزیر اعظم کیلئے بالکل بھی ذیب نہیںدیتا ۔
اگر سابق وزرائے اعظم اور حکومتوں نے ملک یا دستور کے ساتھ کچھ غلط کیا بھی ہے تو اب اس کا تذکرہ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ آج کے دور میں موجودہ حکومت ملک کے قانون اور دستور کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ لیکن مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی مسئلہ کیلئے کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی اور محض سابقہ حکومتوں اور حکمرانوں پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے خود اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس کے ذریعہ موجودہ حکومت اپنے منصوبوںاور عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہے ۔ موجودہ حکومت کے کچھ وزراء اور دوسرے ذمہ دار قائدین نے بارہا کہا ہے کہ وہ دستور کو بدلنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حکومت یا اس کے ذمہ داروں نے ایسے بیانات دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی ان کی سرزنش کی ہے ۔ اس سے موجودہ حکومت کے عزائم کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ اس کے علاوہ دستور میں فراہم کردہ گنجائشوں کو بتدریج اور منظم انداز میں ختم کیا جا رہا ہے ۔ ملک کی اقلیتوں کو دستور میں مساوی حقوق اور مواقع فراہم کئے گئے ہیں لیکن موجودہ حکومت میں یہ مواقع سلب کئے جا رہے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کیا جا رہا ہے ۔ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی بات ہو رہی ہے ۔ ان کے ووٹنگ حقوق چھیننے کی وکالت ہور ہی ہے اور انہیں ملک چھوڑنے کیلئے کہا جا رہا ہے ۔ یہ سب کچھ مودی حکومت میں ہو رہا ہے ۔
جس طرح سے ملک کے دستور سے آج کے دور میں کھلواڑ ہو رہا ہے اور اس کی دفعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے اپنے عزائم کی تکمیل کی کوشش کی جا رہی ہے وہ افسوسناک ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں سبھی دستور کی اہمیت و افادیت کو سمجھیں اور مشترکہ طور پر ایوان میں اس بات کو واضح کیا جائے کہ ملک چلانے میں دستور اور ملک کا قانون ہی حرف آخر ہوگا اور اس میں مداخلت کی یا توڑ مروڑ کی کسی کو اجازت نہیں ہوگی ۔ ایسا کرتے ہوئے ہی ملک کے دستور پر صحیح معنوں میں عمل ہوگا اور دستور بنانے والوں کیلئے بھی حقیقی خراج یہی ہوگا ۔
ملک شام کے قید خانے
شام میں بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وہاں کے قید خانوں یا عقوبت خانوں کی جو تفصیلات منظر عام پر آ رہی ہیں وہ انتہائی دل دہلا دینے والی ہیں اور یہاں سے سفاکیت کی وہ داستانیں سامنے آ رہی ہیں جو ساری انسانیت کو شرمسار کرنے کیلئے کافی ہیں۔ جس طرح سے ان قید خانوں میں انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے انہیں نہ جینے دیا گیا اور نہ مرنے دیا گیا وہ حد درجہ ہولناک ہے ۔ حکمرانوں کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ پتھر دل ہوتے ہیں لیکن شام کے قید خانوں کی داستانیں پتھر دل انسانوں کو بھی پگھلادینے کیلئے کافی ہیں۔ اس طرح کے قید خانے بنانے والوں ‘ ان کی نگرانی کرنے والوں اور یہاں غیر انسانی سلوک کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی ضرورت ہے ۔ حکمران چاہے کوئی بھی ہوں کسی کو انسانوں کے ساتھ اس طرح کا غیر انسانی سلوک کرنے کی اجازت نہیں ہوسکتی ۔ سفاکیت کا خاتمہ بالآخر ہوگیا ہے اور اب ان عناصر کا تعاقب کیا جانا چاہئے جنہوں نے ان عقوبت خانوں میں انتہاء درجہ کے مظالم ڈھائے تھے ۔