لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے ہزاروں لوگوں کے لئے ایک وکیل کس طرح راحت کا ذریعہ بنا ہے
گوہاٹی۔ لاک ڈاؤن کے نفاذ کے کچھ دنوں بعد جب پھنسے ہوئے مہاجرین ورکرس کی پریشانیاں منظرعام پر آنے لگیں ایک 27سالہ عاطفر حسین کو یاد آیا کہ کس طرح ان کے گاؤں کے کچھ لوگ ہریانہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔آسام کے بارپیٹا ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے فیصلہ کیا ان کو بلائیں گے۔
حسین نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ ”انہیں خوف ہورہا تھا کیونکہ کھانے پینے کے اشیاء ان کے پا س ختم ہوگئے تھے“انہوں نے ہریانہ کے مقامی این جی اوز کو اس کام پر مامور کیا”ان کے لئے 24گھنٹوں میں راشن کا انتظام کردیاگیا۔ مسئلہ حل ہوگیا“۔
تاہم اگلے دن حسین کو ایک اور فون کال نوائیڈا سے موصول ہوا۔ حسین نے کہاکہ ”جہاں پر مزدور پھنسے ہوئے تھے وہاں کے مقامی پولیس اسٹیشن کو میں نے کال کیا‘ اور انہیں بھی مدد مل گئی“۔
جس کے بعد مذکورہ وکیل کو ملک بھر سے فون کال آنا شروع ہوگئے کیرالا‘ اترپردیش‘ تاملناڈو‘ مہارشٹرا وغیرہ۔انہوں نے کہاکہ ”پھنسے ہوئے مہاجرین کی مدد کی باتیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی“۔ شروعات میں حسین بے چینی کے ساتھ ان فون کالس کی تفصیلات درج کرنے لگا مگر صفحات بھرگئے۔
حسین نے کہاکہ ”بے شمار فون کالس تھے۔ ایسا لگ رہاتھا میں اپنے آپ میں ایک کال سنٹر ہوں“۔ دوسال قبل حسین نے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا‘ انہوں نے آسام میں شہریت کی جنگ میں پھنسے لوگوں کے لئے قانونی مدد فراہم کرنا شروع کردیاتھا۔
انہوں نے کہاکہ ”میں نے ’انصاف‘ کے نام پر ایک این جی او کی شروعات کی تھی تاکہ این آرسی کی سنوائی او رغیر ملکی ٹربیونل کا سامنا کررہے لوگوں کی مدد کرسکیں“۔
پہلے دو ہفتوں میں حسین کے ’کال سنٹر‘ نے کم سے کم 2000لوگوں کو بنیادی راشن فراہم کیا ہے‘ مگر ایک ماہ بعد انہیں اس کی گنتی بھول گئے۔ ان کے فون پر کیرالا‘ نوائیڈا‘ مہارشٹرا کے نام سے نمبرات محفوظ ہیں۔ حسین کا کہنا ہے کہ ”میں ان کے حقیقی نام تک نہیں جانتاہوں“۔
سب سے پہلے جس جنھیں مدد پہنچی وہ حبیج الدین تھا جو آسام کے 200لوگوں کے ساتھ غازی آبادی میں پھنسے ہوئے تھے۔ حبیج الدین نے کہاکہ ”ان کا نمبر ہمیں فیس بک سے ملا‘ غازی آباد سے ائے فون پر ”کسی نے لکھا تھا کہ گرگاؤں میں پھنسے ہوئے لوگوں کی یہ شخص مدد کرررہا ہے۔
لہذا ہم نے موقع سمجھ کر ان کا نمبر ملایاتھا۔ ہم نہیں جانتے تھے انہوں نے کیا کہ مگر اگلے روز ہمیں راشن ملا“۔ حسین نے کہاکہ میرا کام صرف پھنسے ہوئے لوگوں کو صحیح لوگوں‘ انتظامیہ‘ پولیس‘ این جی اوز سے رابطہ میں لانا تھا جو فیس بک او رٹوئٹر پر مدد فراہم کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ”فون کال پر میں سب سے پہلے ان سے کتنے لوگوں ہیں اور ان کا پتہ کیاہے وہ جانکاری حاصل کرتا تھا اور ان کے قریب کے پولیس اسٹیشن کی جانکاری حاصل کرکے اور پھر فون کال کرتا ہوں“۔
حسین کا کہنا ہے کہ کئی لوگ پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد میں مشکل پیش آرہی ہے کیونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ ہم انہیں سجھا رہے ہیں کہ کس طرح انہیں فراہم جارہے لنک پر کلک کرکے مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ مہارشٹرا میں پھنسے ہوئے سریش زماں کو پہلے ہم نے راشن فراہم کرکے مدد کی اور پھر انہیں اس اسکیم کے متعلق بتایا“