لہو چھڑکتے رہے ہم قفس سے گلشن تک
مگر بہار یہاں بھی نہیں وہاں بھی نہیں
پیاز کی مصنوعی قلت
ہندوستان میں ضروری اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کا بدبختانہ عمل ختم نہیں ہوا ہے ۔ مرکز میں چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو ، منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں یا کالا بازاریوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ آج ملک بھر میں پیاز کی قلت پیدا کردی گئی ہے ۔ تمام شہروں میں پیاز کی قیمت مختلف داموں فروخت کی جارہی ہے ۔ ہندوستانی شہریوں کی بِڑی تعداد باورچی خانے کی اہم شئے پیاز کا استعمال کرتی ہے خاص کر غریب آبادی کی غذا پیاز ہی ہے ۔ اس پر حکومت نے خاص توجہ ہی نہیں دی ۔موسمیاتی مسائل اور قلت کی کمی کو دور کرنے کے لیے سرد خانوں کی تیاری اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز کے ذریعہ بعض ضروری اشیاء کو محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔ گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں وزیر فینانس نے پیاز کے بارے میں افسوسناک بیان دیا تھا کہ انہوں نے تمام عمر پیاز ہی نہیں کھائی ہے ۔ لہذا غریب عوام کو بھی پیاز کا استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔ فینانس کا قلمدان رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ وزیر فینانس ملک کے غریبوں کی غذا کے ساتھ بھونڈا ریمارک کریں ۔ پارلیمنٹ میں نرملا سیتارامن کا بیان مضحکہ خیز تھا کہ انہوں نے عمر بھر میں پیاز ہی نہیں کھائی ہے ۔ وزیر فینانس کے اس ریمارک پر طنزیہ بیان دیتے ہوئے سابق وزیر فینانس چدمبرم نے کہا تھا کہ وزیر فینانس پیاز نہیں کھاتی بلکہ وہ تو غیر ملکی پھل ’’ آواکاڈو ‘‘ کھاتی ہیں ۔ آواکاڈو دراصل امیروں کا پھل ہے ۔ پیاز تو غریبوں کی غذا ہے ۔ کئی غریب ایسے ہیں جو روٹی اور پیاز پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔ ہندوستان کی غریب آبادی کی غذا کو ہی سب سے زیادہ مہنگا بنادیا جارہا ہے تو پھر حکومت کی ناک کی سیدھ میں دھاندلیاں ہورہی ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ۔ بی جے پی حکومت میں وزارت فینانس پر فائز خاتون وزیر نے پیاز کے تعلق سے ایسا ہی ریمارک کیا جیسا کہ ماضی میں فرانس کے عوام جب روٹی کے لیے ترس رہے تھے ، ملک فرانس نے بھوکے عوام کو کیک کھانے کا مشورہ دیا تھا ۔ یہ بڑی ستم ظریفی کی بات ہے کہ ملک میں پیسہ لگا کر منافع کمانے اور کالا بازاری کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ پیاز اب ایک سیاسی شئے بن چکی ہے ۔ جس پر سیاسی روٹی سینک کر اپنا مفاد حاصل کیا جارہا ہے ۔ 1998 میں مرکز میں بی جے پی کی ہی حکومت تھی جب پیاز کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں اور واجپائی حکومت کو گرادیا گیا تھا ۔ پیاز نے سیاستدانوں کو بھی رلایا ہے ۔ خاص کر بی جے پی کو اس کا گہرا تجربہ ہے تاہم اس تلخ تجربہ کے بعد بھی بی جے پی نے سبق حاصل نہیں کیا ہے ۔ ہندوستان میں پیاز کی سالانہ کھپت 20 ملین ٹن ہے جو گوشت خوری سے دو گنا ہے ۔ اس ترقی یافتہ دور میں ہندوستان نے زرعی پیداوار میں ترقی کا نشانہ پار کرلینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر پیاز جیسی شئے کی پیداوار میں کمی کا بہانہ بناکر قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ حکومت ہی اس خصوص میں پالیسی بنانے کو پیاز اور دیگر ضروری اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب طریقہ سے اسٹوریج اور فوڈ پروسیسنگ یونٹوں کے قیام کے ذریعہ تجارتی پالیسی کو مقصود بنایا جاسکتا ہے ۔ دنیا کے دیگر ممالک جیسے امریکہ ، برطانیہ ، یوروپ میں فوڈ پروسیسنگ اور اسٹوریج کی سہولتیں وسیع تر بنادی گئی ہیں جس کی وجہ سے یہاں قلت پیدا ہونے والی لعنت ہی نہیں ہے ۔ ہندوستان بھر میں اس طرح کے اقدامات کیے جائیں تو توقع ہے کہ ہر سال پیاز کی قلت پیدا ہونے کی شکایت دور ہوجائے گی ۔۔