سید شاہ محمد عبد الرؤف قادری
قربانی کو ابتدائے آفرینش سے قرب خداوندی حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور یہ رسم حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ چنانچہ ہابیل و قابیل (فرزندان حضرت سیدنا آدم علیہ السلام) کی ایثار و قربانی کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے اور حسب سابق یہ دستور ہر امت پر فرض رہا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور اس کے بعد حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شریعتوں میں قربانی کا دستور جاری و ساری رہا اور امت محمدیہ پر اسے واجب قرار دے کر اس کو شعائر دین کی حیثیت دے دی گئی، جو حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور حضرت سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے واقعہ ذبیح کی ایک مثالی یادگار ہے۔یہ سنت ابراہیمی، مہتم بالشان مقاصد کی حامل ہے اور قربانی کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے، جو کہ صرف اللہ جل شانہ کے لئے مخصوص ہونی چاہئے، نہ کہ دکھاوا کے لئے۔ یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لئے بھیجا ہے اور اس کے ذمہ کچھ فرائض عائد کرکے پوری کائنات کو اس کی خدمت میں لگا دیا ہے۔ لیکن یہ فرائض اور آزمائش انسان کو پریشان کرنے کے لئے نہیں، بلکہ عشق خداوند قدوس کا بھرپور ثبوت دینے کا ذریعہ ہے۔ خداوند قدوس کی یہ آزمائش مختلف مواقع پر یکے بعد دیگرے آنکھوں کو دیکھنے کو ملتی ہے اور انھیں مواقع میں سے ایک موقع ۱۰؍ ذی الحجہ ہے۔
قربانی ہر دور میں ہر زمانہ اور زندگی کے ہر لمحہ میں الگ الگ طریقوں سے ہوتی رہی ہے اور دور جہالت میں بھی لوگ جانوروں کے علاوہ اپنے بھائی اور انسانی قربانی کو محض دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے اور من کی مرادیں پانے کے لئے دیا کرتے تھے۔ ایسے نازک و تاریک ماحول میں جب مذہب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو اسلام نے دنیا کے سامنے حقیقت پیش کردی کہ قربانی کا مقصد من کی مرادیں پانا نہیں ہے اور نہ ہی خون بہانا، جانور کا گوشت کھانا یا عزیز و اقارب، دوست احباب اور پڑوسیوں میں گوشت تقسیم کرنا ہے، بلکہ قربانی کا اصل مقصد انسانی سیرت کی معراج اور خداوند تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔اللہ رب العزت کا کوئی حکم قربانی سے خالی نہیں ملے گا، ہر وہ کام (حکم) خواہ وہ ادنی ہو یا اعلی، بغیر قربانی کے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص مذہب اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے تو اس کو سب سے پہلے باطل پرستی کو ترک کرنا ہوگا۔ یہ بھی ایک طرح کی قربانی ہے۔ جب وہ پوری طرح داخل اسلام ہو جاتا ہے تو نماز، روزہ، حج، زکوۃ، ان تمام امور کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ خواہشات نفسانی کو مارے۔ یہ عمل قربانی دینے کے برابر ہے۔ اسی طرح زکوۃ ادا کرنے کے لئے تجوری خالی کرنا، بذات خود اس پرآشوب دور میں بہت بڑی قربانی دینے کے برابر ہے۔ اسی طرح ادائیگی حج بیت اللہ کے لئے سب سے پہلے حقداروں کا حق ادا کرنا، جس کے لئے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ حقوق اللہ تو معاف ہو سکتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہو سکتے۔ یعنی آپ کا قرض باقی ہو تو اس کا ادا کرنا ضروری ہے، اگر ادا نہ کیا گیا ہو تو اس کا حصہ الگ کردیا جائے اور تمام برائیوں سے توبہ کرکے حج ادا کرنا، جان و مال کی قربانی سے بڑھ کر ہے۔ مختصر یہ کہ زندگی کے ہر شعبہ، ہرگوشہ میں، ہر قدم پر قربانی ہی طرۂ امتیاز ہے۔پیام عید الاضحی کا دوسرا نام ایثار و قربانی ہے۔ اللہ تعالی کے حضور میں شکر گزاری، اس کی عظمت و کبریائی کا اعلان کرنا ہے۔ ایثار و قربانی اس بات کا اظہار ہے کہ بندے مرنا جینا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہو اور اس کے لئے جینے مرنے کا صحیح طریقہ وہی ہے، جس میں اللہ رب العزت کی رضا شامل ہو۔ قربانی، اللہ تعالی کے حضور کامل سپردگی اور مکمل وفاداری کا اقرار ہے ۔