کسی کا بانٹ لیں غم اور کسی کے کام آئیں
ہمارے واسطے وہ روز ، روزِعید ہوتا ہے
آج عید الاضحی ہے ۔ اسے عید قربان بھی کہا جاتا ہے ۔ پورے جوش و خروش اور روایتی مذہبی جذبہ کے ساتھ عیدالاضحی کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ عوام اللہ کی راہ میں قربانی کیلئے تیاریوں میںمصروف ہیں۔ بے عیب جانوروں کی تلاش کی جا رہی ہے ۔ بہتر سے بہتر جانوروں کی قربانی کا نظم کیا جا رہا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی تکمیل میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے ۔ تاہم آج کے دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ قربانی کے حقیقی پیام کو سمجھا جائے اور اسے اپنی زندگیوں میں رائج کیا جائے ۔ صرف جانوروں کی قربانی کرنا ہی عیدالاضحی کا پیام نہیں ہے ۔ جانور ٰذبح کرکے گوشت تقسیم کرنے کا نام ہی عیدالاضحی نہیں ہے ۔ عیدالاضحی کا پیام بہت واضح ہے ۔ یہ پیام ہمیں درس دیتا ہے کہ اللہ رب العزت کی خوشنودی کیلئے اپنی سب سے عزیز ترین شئے اور ہستی کو بھی قربان کردینے سے گریز نہ کیا جائے ۔ اللہ رب العزت کے احکام کی پابندی اور اس کی خوشنودی کیلئے ہر شئے کو قربان کردینے کا نام ہی اصل قربانی ہے ۔ عیدالاضحی کے حقیقی پیام کو سمجھنے اور اسے اپنی زندگیوں میں رائج کرتے ہوئے ہی ہم حقیقی معنوں میں سنت ابراہیمیؑ کو پورا کر سکتے ہیں۔ محض جانور قربان کردینے اور گوشت تقسیم کردینے سے عیدالاضحی کا پیام پورا نہیں ہوسکتا ۔ ہمیںاس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ آیا ہم قربانی کے تقاضوں کو پورا بھی کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہمیں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ احکام الہی کی ہم کس حد تک پابندی کر رہے ہیں۔ ہم کس حد تک اللہ تعالی کی نافرمانیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ غرور اور تکبر ہماری اپنی زندگیوں میں کس حد تک سرائیت کر گیا ہے ۔ احسان فراموشی ہم میں کس حد تک بڑھ گئی ہے ۔ ملت کی دردمندی کا جذبہ کس حد تک ختم ہوگیا ہے ۔ ہم میں حسد اور جلن کس حد تک پہونچ گئی ہے اور ہم اپنوں کو نیچا دکھانے کی کس حد تک کوشش کر رہے ہیں۔ ہم میں ریا کاری اور دنیا دکھاوا کس حد تک فروغ پا گیا ہے ۔ ان سب حقائق کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ان تمام برائیوں کو دور کرتے ہوئے ہی ہم حقیقی معنوں میں عیدالاضحی کے پیام پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قربانی کے جانور کے ساتھ اپنے آپ میں موجود غرور اور تکبر کو بھی قربان کردیں۔ غرور اور تکبر کو اسلام میں انتہائی درجہ تک نا پسند کیا گیا ہے ۔ ہمیں اس سے دوری اختیار کرنی چاہئے ۔ ہمیں جانور کے ساتھ اپنی انانیت کو بھی قربان کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیںغیبت اور چغل خوری کی عادت کو بھی قربان کرنے کی ضرورت ہے جسے اسلام میں انتہائی ناپسند کیا گیا ہے اور اس کی وعید بھی آئی ہے ۔ ہمیں غریبوں اور مسکینوں کی ہمدردی اور دادرسی کے جذبہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس کا ہمیںاسلام نے حکم دیا ہے ۔ ہمیںتعلیمات اسلامی پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ ہم دین اور دنیا دونوں میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ ہم جانور کے ساتھ اپنی ریاکاری اور دنیا دکھاوے کو بھی قربان کردیں کیونکہ جو عمل دنیا کو دکھانے کیلئے کیا جاتا ہے وہ اس کے کرنے والے کیلئے ثواب کی بجائے غضب الہی کا موجب بن جاتا ہے ۔ غریبوں اور مسکینوں میں احساس کمتری پیدا کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مساوی درجہ کا سلوک کریںاور ان کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کی جائے ۔ یہ عمل اللہ تعالی کو بہت پسند ہے ۔ ساتھ ہی ہم اپنے اعمال پر توجہ دیں۔ اپنے عیبوں پر نظر ڈالیں اور ان کو دور کرنے کیلئے بھی سرگرم ہوجائیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ احکام الہی پر جب تک من و عن عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہم سنت ابراہیمی ؑ کی تکمیل میں کامیاب بالکل بھی نہیں ہوسکتے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم خداوندی پر اپنے فرزند دلبند حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کردینے تک تیاری کرلی تھی ۔ لیکن چونکہ اللہ تعالی کو محض خلوص نیت درکار ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالی نے جنت سے دنبہ روانہ فرمادیا ۔ اسی طرح ہم کو بھی اپنے اعمال میں خلوص نیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم دنیا کو دکھانے کیلئے کوئی کام کریں گے تو یہ ہمارے لئے وبال جان بن جائے گا ۔ اللہ تعالی کی رضاء اور خوشنودی ہی مقصد حیات ہونی چاہئے اور یہ خلوص نیت کے ساتھ ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔ عیدالاضحی کے حقیقی مقصد کو اپنی زندگیوں میںر ائج کرکے ہی ہم دین اور دنیا میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ یہی اٹل حقیقت ہے ۔