پیکر صبر و رضا حضرت عثمان غنیؓ

   

عبداللہ محمد عبداللہ

خلیفۂ سوم امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُموی قریشی ( ۴۷ قبل ہجری ۔۳۵ہجری ) داماد رسول، اور جامع القرآن تھے۔ حضرت عثمان غنیؓکامل حیاوایمان کی کنیت ”ابوعمرو‘‘ اور لقب ”ذوالنورین‘‘ (دونوروالے)ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم صفات سے مُتصف فرماکر صحابہ میں ممتاز فرمایا ،جو اُن ہی کا حصہ ہے۔ حیاکا ایساپیکر تھے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے ۔ آپؓ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دی۔ حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عثمانؓ !اللہ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیئے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اورجو ظاہر کیے اوروہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں ‘‘۔
شہادت: آپؓ کے محاصرے کو چالیسواں روزہو رہا تھا اور باغی آپؓ کو شہیدکرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ کھانے کی ہرشے آپؓ سے روک دی گئی تھی اور پانی کے ایک ایک قطرے سے آپؓکو محروم کر دیا گیا تھا۔ ادھر عثمانؓ ذوالنورین کو بھی حضورؐ پر نور نے خواب میں تشریف لاکر خبردے دی تھی کہ اے عثمانؓ آج تم ہمارے پاس آجاؤگے اور آج کا روزہ تم ہمارے ہاں افطارکروگے۔اس لئے سیدنا عثمانؓ ذوالنورین جام شہادت نوش کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوچکے تھے۔ نماز فجرکے بعد نیا جامہ زیب تن کیا اور شہادت کو گلے سے لگانے کیلئے سراپا شوق و انتظار بن گئے۔ جمعتہ المبارک ۳۵ ہجری ۱۸ ذوالحجہ کو نماز عصرکا وقت قریب آیا توآپ قرآن حکیم کے پہلے جزکے آخری رکوع کی اس آیت پر پہنچ چکے تھے جس کے متعلق حضورؐ نے ارشاد فرمایا تھا: اے عثمان تم سورۂ بقرہ پڑھتے شہیدکئے جاؤگے اور تمہارے خون کے قطرے قرآن مجید کی اس آیت پرگریں گے۔جس کا ترجمہ ہے: ’’کہ پس تیری طرف سے ان کو تیرا اللہ ہی کافی ہے اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔باغی مکان کی پشت سے آپ کے مکان میں کود گئے سب سے پہلے ان بدمعاشوں نے سیدنا عثمان ؓذوالنورین کی داڑھی پر ہاتھ ڈالا اور آپ کی داڑھی کو زور زور سے کھینچنے لگے۔ پھرآپ کے جسم مبارک کو لہولہان کیا پھر تلوار کے وار سے آپ کی پیشانی سے خون کی دھار نکلی جو قرآن کریم کی اسی آیت پر پھیل کر اسلام کی داستان کوگرم و رنگین کرگئی۔

شہادت عثمان پر سیدہ نائلہ ؓ کا خطبہ
امیرالمومنین سیدنا عثمان ذوالنورین کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ سیدہ نائلہ ؓ نے باغیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ایک پُردرد اور پُراثر خطبہ ارشاد فرمایا جو سوزوگُداز کا مرقع اور گرم گرم آنسوؤں کا سرچشمہ ہے ۔ آپ نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا۔ذوالنورین حضرت عثمان تمہارے سامنے مظلومانہ حالت میں قتل ہوئے ان کا قتل معذرت خواہی اور عوام کی مرضی و اعتماد حاصل کرنے کے باوجود ہوا۔برادران سلام نہ تومیرے یہاں کھڑے ہونے پر تعجب کرو اور نہ میری باتوں کو فضول سمجھو۔ میں بسمل ہوں اشک ریز ہوں مجھ پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹا۔ میں عثمان ذوالنورینؓ کے جانکاہ صدمے سے دوچار ہوئی ہوں۔ وہ عثمانؓ جو رسول اللہ کے دور میں صاحب فضیلت مرجع انام اور نبیؐ کی مجلس مشاورت میں صائب الرائے کی حیثیت رکھتے تھے وہ رسول اللہ کے تیسرے جانشین تھے ،وہ پسندیدہ و برگزیدہ شخصیت کے مالک تھے ،فضائل میں کوئی ان سے آگے نہ بڑھ سکا۔ گناہگار سے گناہگار نے ان کی فضیلت میں کوئی شک نہ کیا۔ عام مخلوق نے زمام حکومت ان کے حوالے کی ان کے حقوق کو سمجھا ان کے ایثار ان کی روش اور ان کے طریقہ کی تعریف کی کوئی شخص ان کے مقابل نہ تھا۔ ان کی خیر اور بھلائی میں کسی کو انکار نہ تھا۔ عثمانؓ نے ہدایت والا راستہ اختیار کرتے ہوئے رسول اللہؐ اور پہلے دو خلفا ابوبکرؓ، عمرؓ کا طریقہ اپنایا ۔ عثمانؓ نے سرکشوں کا قلع قمع اور شیطانی نظام زندگی کا خاتمہ کیا ۔ناجائز شوکت و وقار کو مٹایا، حتیٰ کہ دین کو اور صراط مستقیم کو وسعت ملی اور کفر سمٹ کر رہ گیا۔عثمان نے بُرے لوگوں کی لغزشوں سے چشم پوشی اور نیکو کاروں کی نیکی پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ اپنے مالوں سے تمہاری مددکرتا رہا۔ عثمانؓ کے دور میں تمہارے معاملات حسن و خوبی کے ساتھ سرانجام پانے لگے مگرخود تم نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ تم نے بے داغ زندگی کے مالک اللہ تعالیٰ کی کتاب سمجھنے والے نرم زبان عثمانؓ پر وہ سختیاں کی ہیں کہ کوئی بھی ان سختیوں کو گوارہ نہیں کر سکتا تم نے ان کا خون بہایا ان کے حرم کو بے حرمت کیا۔ تم نے چار حرمتوں کو بیک وقت پارہ پارہ کیا۔ایک اسلام کی حرمت ، دوسری خلافت کی حر مت ، تیسری احترام والے مہینے یعنی ذی الحجہ کے ماہ کی حرمت اور چوتھی مدینہ منورہ کی حرمت کو ضائع کیا اور آخرکار تم نے اس شہید کی لاش کو دفن کرنے میں بھی رکاوٹ پیدا کی لیکن یاد رکھو تمہاری ان ناپاک کوششوں اور قتل کی سازشوں کا انجام جلد معلوم ہوجائے گا۔اے اللہ ظالموں کو بدترین بدل اور ذلیل زندگی نصیب کر۔
یاد رکھو تمہارے پوشیدہ ارادے تم کو غلامی کا طوق پہنائیں گے تمہارے راستے یکسر بند ہوکر رہ جائیں گے اس کے بعد تم کو عثمانؓ یاد آئیں گے لیکن… تم کو نصیب نہ ہوں گے۔تم عثمانؓ کے جانے کے بعد اللہ کی ناراضگی کو برداشت نہیں کر سکوگے تم ڈھونڈوگے کہ وہ عثمانؓ جو مصیبتوں میں کام آتا تھا جس نے رسول اللہؐ کی دو صاحبزادیوں کے ذریعے حضورؐ کی دامادی کا شرف حاصل کیا تھا جس کا دستر خوان اور نیک ارادے وسیع تھے …وہ عثمان ؓکہاں گیا۔لوگو! تم ایک تاریک وحشت ناک اور غضب آلود فتنے میں مبتلا ہو چکے ہو۔ تمہارے معاملات شرکی نذر ہو چکے ہیں مستحق لوگوں کو ان کے حقوق ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ نیکی کا ہر درجہ بدی کی نظرہوگیا ہے شرہرطرف سے تعاقب کر رہی ہیں اگر تم نے خلافت عثمان کو وحشت آلود نگاہوں سے دیکھا تو ابھی اور بھی بہت کچھ وحشت افزا نظروں سے دیکھنا ہوگا۔مگراب کوئی ندامت کام نہ آئے گی اور تمہاری کوئی عذر خواہی نہ سنی جائیگی۔