رُخ سے ذرا نقاب اٹھاکر تو دیکھئے
مجھ کو مری نظر سے چھپا کر تو دیکھئے
پیگاسیس ‘ تحقیقات کیوں نہیں ؟
اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویر کے ذریعہ ہندوستان میں بھی بے شمار افراد کی جاسوسی اور ان کے فونس ٹیپ کئے جانے کے سنگین انکشافات میڈیا اداروں کی تحقیقات میں ہوئے ہیں۔ اس مسئلہ پر حکومت دیگر تمام اہم مسائل کی طرح خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی واضح بیان نہیں دیا ہے ۔ نہ اس کی توثیق ہوئی ہے اور نہ ہی حکومت تردید کر رہی ہے ۔ راجیہ سبھا میں صرف وزیر الیکٹرانکس و انفارمیشن اشونی ویشنو کی جانب سے ایک بیان دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں مسلمہ طریقہ کار ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی غیر مجاز جاسوسی نہ ہونے پائے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر غیر مجاز جاسوسی نہیں کی گئی ہے تو پھر کیا حکومت نے جاسوسی کے احکام دئے تھے تاکہ اسے مجاز قرار دیا جاسکے ؟ ۔ یہ جاسوسی سافٹ ویر فروخت کرنے والی اسرائیلی کمپنی نے تو واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ یہ سافٹ ویر صرف حکومتوں کو فروخت کیا گیا ہے ۔ کسی خانگی ادارہ کو یہ فروخت نہیں کیا گیا ۔ اس پر حکومت نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ مبہم جواب دیتے ہوئے حکومت دامن بچانا چاہ رہی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر واضح موقف اختیار کرے ۔ پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا ہے ۔ اس میں خود وزیر اعظم یا ملک کے وزیر داخلہ پوری وضاحت اور دمہ داری کے ساتھ بیان دیں۔ ضرورت پڑنے پر تحقیقات کا اعلان کیا جائے ۔ اپوزیشن جماعتوں اور ملک کے عوام کو اور خاص طور پر صحافتی حلقوں کو ( جن کی جاسوسی کی گئی ) مطمئن کیا جائے ۔ سی پی آئی ایم کے رکن راجیہ سبھا جان بریٹاس نے اس مسئلہ پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت کی نگرانی میں تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ حکومت کو اس مسئلہ پر غیرذمہ داری والا بیان دینے یا مبہم بیان بازی کرنے کی بجائے واضح جواب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ صحافیوں کی جاسوسی کی گئی ہے ‘ وزراء کی کی گئی ہے اور دستوری عہدوں پر فائز افراد کا بھی تعاقب کیا گیا ہے ۔ سکیوریٹی ایجنسیوں کے سربراہان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ایسے میں یہ ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
ہندوستان کی طرح دوسرے چند ممالک میں بھی پیگاسیس سافٹ ویر کے ذریعہ جاسوسی کی گئی ہے اور کچھ ممالک میں تحقیقات کے احکام بھی دیدئے گئے ہیں۔ حکومت ہند نے کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے اور تحقیقات کا مطالبہ کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ انتہائی نامناسب رویہ ہے ۔ چند دن قبل رافیل معاملت میں بھی فرانس میں تحقیقات کا آغاز ہوا کیونکہ یہ انکشاف ہوا کہ اس معاملت میں درمیانی افراد کو رشوتیں دی گئی ہیں۔ حکومت ہند اس پر بھی خاموش ہے ۔ صرف ایک بیان دیتے ہوئے ایسے کسی الزام کو مسترد کردینا کافی نہیں ہوسکتا ۔ رافیل پر بھی حکومت تحقیقات کروانے سے گریزاں ہے اور اب پیگاسیس جاسوسی مسئلہ پر بھی حکومت نے مبہم رویہ اختیار کیا ہوا ہے ۔ ملک کے عوام کو ان معاملات میں شبہات ہیں۔ ذہنوں میں شکوک پنپ رہے ہیں ایسے میں عوام کو مطمئن کرنا اور اپوزیشن کے شبہات کو دور کرنا حکومت کا دستوری اور جمہوری فریضہ ہے ۔ اس فریضہ سے پہلو تہی نہیں کی جانی چاہئے ۔ پیگاسیس کے ذریعہ اپوزیشن کے قائدین ‘ وزراء ‘ صحافیوں اور تاجروں کے علاوہ دوسرے افراد کے اسمارٹ فونس کے سارا ڈاٹا کو حاصل کرلیا گیا ۔ یہ در اصل پرائیویسی میںمداخلت ہے ۔ اس سے اظہار خیال کی آزادی کی بھی حق تلفی ہوتی ہے ۔ یہ انتہائی سنگین نوعیت کا معاملہ ہے لیکن حکومت اور اس کے ذمہ داران اور بی جے پی قائدین اسے غیر اہم قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے حکومت کے خلاف شبہات کو تقویت مل رہی ہے ۔
کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے پیگاسیس کو وائرس نہیں بلکہ ایک ہتھیار قرار دیا ہے جس سے مخالفین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ امریکہ نے بھی پیگاسیس کے ذریعہ مخالفین کی جاسوسی پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ کچھ ممالک میں ایسے معاملات کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ ہندوستان میں بھی اس معاملے کی تحقیقات ہونے کی ضرورت ہے ۔ مبہم بیان بازی کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرتے ہوئے حقائق کی پردہ پوشی کی کوششیں نہیںکی جانی چاہئیں۔ملک کے جمہوری اور دستوری اقدار کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ پیگاسیس معاملہ کی جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعہ ہی حکومت عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو رفع کرسکتی ہے اور ایسا کیا جانا چاہئے ۔
