دیوانگیٔ شوق کے ساماں ہیں نظر میں
ہیں آپ مرے ساتھ ، مگر دل ہے کہیں اور
پیگاسیس پر مرکز کا ٹال مٹول
پیگاسیس جاسوسی مسئلہ پر مرکزی حکومت ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو بھی مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے ۔ عدالت میں حکومت نے آج کہا کہ وہ پیگاسیس جاسوسی مسئلہ پر عدالت میں تفصیلی حلفنامہ داخل کرنا نہیںچاہتی کیونکہ اس کے نتیجہ میں تمام تفصیلات دہشت گردوں کے علم میں بھی آسکتی ہیں اور یہ داخلی اور قومی سلامتی کا مسئلہ ہے ۔ جس وقت سے صحافتی اداروں کی جانب سے جاسوسی اسکینڈل کا پردہ فاش ہوا ہے اس وقت سے ہی مختلف گوشوں سے حکومت سے مختلف سوال کئے جا رہے ہیں لیکن حکومت کوئی بھی جواب دینے تیار نہیں ہے ۔ حکومت کی جانب سے ابتداء میں ایک سطری بیان دیا گیا اور کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی ۔ جب زیادہ گوشوں سے اصرار کیا گیا تو یہ کہا گیا چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے کوئی ریمارک نہیں کیا جاسکتا اور اب عدالت خود حکومت سے جواب اور تفصیل طلب کر رہی ہے تو حکومت اس پر ایک نئے پہلو کو پیش کرتے ہوئے تفصیلات فراہم کرنے سے عملا گریز کر رہی ہے ۔ عدالت میں حکومت کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ حالانکہ وہ کچھ چھپانا نہیں چاہتی لیکن قومی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ ایک تفصیلی حلفنامہ ان درخواستوں کے تعلق سے پیش کرنا بھی نہیں چاہتی ۔ در اصل حکومت اس معاملے میں اپنا دامن بچاتے ہوئے عوام اور مختلف گوشوں کی جانب سے کئے جانے والے سوالات کے جواب دینے سے بچنا چاہتی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ قومی سلامتی جیسے حساس اور انتہائی اہمیت کے حامل مسئلہ کا حوالہ دے رہی ہے ۔ ہندوستان بھر میں ایک بھی فرد ایسا نہیں ہوگا جو قومی سلامتی پر کوئی آنچ آنے کا موقع دینا چاہے گا ۔ یہاں مسئلہ قومی سلامتی کا نہیں ہے ۔ عدالت نے بھی سالیسیٹر جنرل پر واضح کردیا کہ خود وہ بھی قومی سلامتی پر تفصیل جاننا نہیںچاہتی ۔ یہاںسوال شہریوں کے اس استدلال کا ہے کہ ان کے فونس ٹیپ کئے گئے ہیں ۔ اس پر تفصیل فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ عدالت نے اس سے قبل بھی حکومت کو تفصیلات فراہم کرنے کا موقع دیتے ہوئے وقت دیا تھا ۔
عدالت کا آج یہ کہنا تھا کہ ہم کو کرنا کچھ ہے اور سالیسیٹر جنرل کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ عدالت نے ریمارک کیا کہ سانپ گذرنے کے بعد جھاڑیوں کو پیٹتے رہنے سے مسئلہ حل نہیںہوگا ۔ عدالت یہ دیکھے گی کہ وہ کیا حکمنامہ جاری کرسکتی ہے۔ حالانکہ عدالت نے اس تعلق سے اپنے احکام کو دو تا تین دن کیلئے محفوظ کرلئے ہیں تاہم یہ کوئی قیاس نہیںکرسکتا کہ عدالت سے کیا کچھ احکام جاری ہوسکتے ہیں۔ عدالت نے سابقہ سماعت میں سالیسیٹر جنرل پر واضح کردیا تھا کہ سپریم کورٹ کبھی بھی قومی سلامتی کے مسئلہ میں کوئی مداخلت کرنا نہیںچاہتی ۔ سوال صرف یہ ہے کہ انفرادی ٹیلی فونس کو ہیک کیا گیا ہے ۔ کس ایجنسی نے ایسا کیا ہے اور کس ایجنسی کو ایسا کرنے کا اختیار ہے ۔ کیا یہ سب کچھ کسی کے احکام پر کیا گیا یا نہیں؟ ۔ سالیسیٹر جنرل نے عدالت میں کہا تھا کہ اگر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کی پرائیویسی میںمداخلت کی گئی ہے تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور ہم اس کی تفصیل میںجانا چاہیںگے ۔ ہم ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینگے تاہم عدالت نے اس کو قبول نہیں کیا تھا اور کہا تھا کہ کمیٹی کی تشکیل کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس طرح کی رپورٹ عموما عوامی حلقوں میں آجاتی ہے ۔ عدالت نے پوچھا تھا کہ اس طرح کے حلفنامہ کا مقصد یہی ہونا تھا ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ حکومت کا موقف کیا ہے ۔ سالیسیٹر جنرل مختلف انداز سے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن عدالت نے ان کی کسی تجویز پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا ہے ۔
سوال اصل یہ ہے کہ اس طرح کی جاسوسی کی گئی ہے یا نہیں ۔ قومی سلامتی کے مسئلہ پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کیا جانا چاہئے ۔ کوئی ہندوستانی شہری کبھی بھی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ کی اجازت نہیں دے گا ۔ حکومت سے اصل سوال یہ ہے کہ آیا جاسوسی کی گئی ہے یا نہیں ؟ ۔ پیگاسیس سافٹ ویر کا استعمال کیا گیا ہے یا نہیں ؟ ۔ اس سوال کے سیدھے جواب سے کسی تفصیل میں گئے بغیر عوام کو مطمئن کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم مرکزی حکومت اس پر کوئی جواب دینے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ حکومت کو اس معاملے میں فراخدلانہ موقف اختیار کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اور ملک کے عوام کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہے ۔ ٹال مٹول کی پالیسی سے مرکزی حکومت کو گریز کرنا چاہئے ۔
