چبھتے سوالوں سے فرار کیوں ؟

   

جب اُٹھتی ہے موجوں میں لہر بغاوت
سمندر میں کرتی ہیں برپا تلاطم
وزیراعظم نریندر مودی ویسے تو ہر مسئلہ پر اظہار خیال کرنے کیلئے جانے جاتے ہیں۔ وہ معمولی سی باتوں پر بھی سوشیل میڈیا پر اپنا رد عمل دیتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتہائی اہمیت کے حامل اور سلگتے ہوئے مسائل پر وہ اظہار خیال سے گریز کرتے ہیں۔ اب جبکہ ملک میں انتخابات کا عمل اختتامی مراحل میں پہونچنے لگا ہے تو کئی قائدین ہیں جو میڈیا میں چھائے رہتے ہیں۔ میڈیا بھی ایسے قائدین کو گھیرے رہتا ہے اور ان سے مختلف سوال پوچھے جاتے ہیں۔ کئی قائدین ہیں جو چاہتے ہیں کہ میڈیا ان سے رجوع ہو اور وہ میڈیا کے ذریعہ عوام تک اپنی بات کو پہونچا سکیں۔ تاہم جہاں تک وزیر اعظم مودی کا سوال ہے تو یہ بات بھی ایک تلخ حقیقت ہی ہے کہ اپنے دس سال کے اقتدار میں مودی نے ایک مرتبہ بھی پریس کانفرنس نہیں کی اور نہ ہی میڈیا کے اختلافی نظریہ رکھنے والے صحافیوں کو انٹرویو کا موقع دیا ہے ۔ انہوں نے فلم اداکار کو انٹرویو دیا ہے جو یہ پوچھتے رہ گئے کہ وہ ( وزیر اعظم ) آم چوس کر کھاتے ہیں یا کاٹ کرکھاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے تلوے چاٹو اینکرس کو انٹرویو دئے ہیں جنہوں نے یہ سوال انتہائی اہم سمجھا کہ وزیر اعظم اپنے ساتھ بٹوہ رکھتے ہیں یا نہیں۔ ان کی جیب میں پیسے ہوتے ہیں یا نہیں۔ وزیر اعظم نے ان اینکرس کو بات چیت کا موقع دیا جو یہ پوچھتے رہ گئے کہ وہ آخر تھکتے کیوں نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے ان خود ساختہ صحافی نما اینکرس کو بھی بات چیت کا موقع دیا جو یہ پوچھتے رہے کہ آخر ان میں اتنی توانائی کہاں سے آتی ہے کہ وہ لگاتار کئی کئی گھنٹے کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ سارا کچھ در اصل میڈیا اور وزارت عظمی دونوں ہی کے وقار کیلئے مضحکہ خیز کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ نہ تو ملک کے مسائل پر کوئی بات ہوئی اور نہ ہی عوام کو جو مشکلات اور پریشانیاں ہیں ان پر کوئی جواب دیا گیا ۔ وزیر اعظم نے اپنے وعدوں کو یاد دلانے والے صحافیوں کو انٹرویو کا موقع دینے سے گریز کیا جنہوں نے بارہا کوشش کی کہ ایک بار وزیر اعظم سے بات کی جاسکے تاکہ ملک کے عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے ان کی تکمیل کے تعلق سے جواب طلب کیا جاسکے ۔
اب بھی جبکہ انتخابی عمل عروج پر پہونچ چکا ہے اور اب پانچویں مرحلہ کی رائے دہی ہو رہی ہے وزیر اعظم کچھ ایسے اداروں کوا نٹرویو دینے لگے ہیں جو کارپوریٹس کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ یہ وہی کارپوریٹس ہیں جن کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ مودی کی ان پر کرم نوازیاں چلتی رہتی ہیں۔ کئی عوامی شعبہ کے ادارہ جات مودی نے ان کارپوریٹس کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کردئے ہیں۔ کچھ ایسے تلوے چاٹنے والے اینکرس ہیں جو وزیر اعظم سے انٹرویو کو اپنی معراج کے طور پر پیش کرنے میںلگے ہوئے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اب ان اداروں کو انٹرویو دئے جا رہے ہیں جن کے نام سے پہلے الجھن ہوا کرتی تھی۔ یہ خوف ستاتا رہتا کہ اگر ان اداروں کو انٹرویو دیا جائے تو ان سے تعلق رکھنے والے حقیقی صحافی چبھتے ہوئے سوال پوچھیں گے ۔ ان سے یہ پوچھا جائیگا کہ 100دن میں مہنگائی کم کیوں نہیں کی گئی ۔ ان سے یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا تھا کہ سالانہ 2 کروڑ نوکریاں کس کو دی گئیں۔ ان سے یہ سوال بھی پوچھے جانے کا اندیشہ تھا کہ کالا دھن بیرونی ممالک سے واپس کیوں نہیںلایا گیا ۔ ان سے یہ پوچھے جانے کا بھی امکان تھا کہ ہر شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے کیوں جمع نہیں کئے گئے ۔ اگنی ویر اسکیم کے تعلق سے سوال پوچھے جاسکتے تھے ۔ 100 اسمارٹ شہر بنائے جانے کی اسکیم کے تعلق سے پوچھا جاسکتا تھا ۔ خواتین کے تحفظ اور ان کی سکیوریٹی و سلامتی کو یقینی بنانے کے تعلق سے بھی سوال کیا جاسکتا تھا ۔
تاہم ایسے اداروں کو اس وقت تک مودی نے انٹرویو نہیں دیا جب تک ان پر اپنے ہمنواء اور حاشیہ بردار کارپوریٹس کا غلبہ نہیں ہوگیا ۔ اس وقت تک ان اداروں کو موقع نہیں دیا گیا جب تک وہاں سے حقیقی صحافیوں کی وابستگی ختم نہیں ہوگئی ۔ اب انٹرویو دئے جا رہے ہیں اور سوال بھی وہی پوچھے جا رہے ہیں جو مودی کی تشہیر میںمعاون ہوسکتے ہیں۔ جواب بھی وہی دئے جا رہے ہیں جن کے ذریعہ عوام کے ذہنوں سے حقیقی مسائل کو محو کیا جاسکتا ہے ۔ یہ سب کچھ طئے شدہ پروگرامس دکھائی دے رہے ہیں اور یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم چبھتے ہوئے سوالوں سے بچتے ہوئے دکھاوے کے انٹرویو کا موقع دے رہے ہیں ۔