چلے ہیں آگ بجھانے جو لکڑیاں لے کر

   

پڑوسیوں سے دوری … اسرائیل سے قربت
کانگریس میں عارضی سیز فائر… جی-23 کے سوالات برقرار

رشیدالدین
نجی زندگی ہو یا ملک کی خارجہ پالیسی دوست کے انتخاب کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اگر اس معاملہ میں انسان مردم شناس نہ ہو تو ہر قدم پر پچھتاوا اس کا مقدر بن جائے گا ۔ زندگی ہو کہ ملک کی سیاست دوست اور دشمن کے تعین میں انسان کی صلاحیت اور قابلیت کا اظہار ہوتا ہے۔ دوست اسی کو بنایا جاتا ہے کہ جو مدد کیلئے آواز کا انتظار نہ کرے بلکہ وہ دوست کی خاموشی اور مسکراہٹ کے پیچھے مسائل اور تکالیف کا احساس کرے ۔ دوست کے انتخاب کے معاملہ میں اکثر لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ جب ممالک کی خارجہ پالیسی کا معاملہ ہو تو حکومت کے پیش نظر قومی مفادات ہونے چاہئے ۔ کامیاب ممالک وہی ہیں جو پڑوسیوں سے بہتر تعلقات استوار رکھتے ہیں۔ اگر پڑوسی ممالک دوست بن جائیں تو وہ دشمن کے کسی بھی حملہ یا کارروائی کیلئے ڈھال بن جاتے ہیں۔ جن ممالک سے سرحدیں جڑی ہوں ، ان کے ساتھ کشیدہ ماحول داخلی سلامتی کو خطرہ پیدا کرسکتا ہے ۔ آزادی کے بعد سے 2014 ء تک ہندوستان پر حکومت کرنے والے قائدین نے پڑوسیوں سے مضبوط رشتوں کو اولین ترجیح دی تاکہ عوام چین کی نیند سو سکے لیکن نریندر مودی حکومت نے معاملہ کو الٹ دیا۔ پڑوسی دشمن ہوگئے اور دور دراز کے ممالک سے دوستی کی جارہی ہے ۔ اچھے اور برے میں خبرگری کرنے والا پڑوسی ہوتا ہے لیکن نریندر مودی حکومت کو کون سمجھائے۔ خارجہ پالیسی کی ناکامی کہیں یا پھر ملک کے مفادات کے تحفظ سے عدم دلچسپی الغرض مودی حکومت نے گزشتہ سات برسوں میں اپنے تمام پڑوسیوں کو دور کردیا ہے ۔ عام طور پر پاکستان کے ماسوا دیگر پڑوسیوں سے تجارتی اور ثقافتی تعلقات ہمیشہ مستحکم رہے لیکن پتہ نہیں کیوں مودی حکومت کو دور دراز کے ممالک دوست دکھائی دے رہے ہیں۔ سوائے مالدیپ کے کسی بھی پڑوسی سے ہندوستان کے روابط خوشگوار نہیں ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد خطہ میں تبدیل شدہ حالات نے پڑوسی ممالک کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے ۔ امریکہ کے وجود میں کمی کے بعد چین نے اپنی گرفت علاقہ میں مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے ۔ اب تک صرف پاکستان سے خطرہ تھا لیکن اب اس سے بڑے دشمن چین نے ہندوستان کے پڑوسیوں کو ملاکر علاقہ پر گرفت مضبوط کرلی ہے۔ چین پہلے ہی سے ہندوستانی علاقہ پر قابض ہے اور ہندوستان فوجی کارروائی کے ذریعہ اراضی واپس کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اگر ہندوستان نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو اس کے اطراف گھیرا مزید تنگ ہوجائے گا ۔ کسی بھی مشکل گھڑی میں امریکہ یا اسرائیل کے مدد کو پہنچنے میں دیر ہوجائے گی۔ امریکہ میں ٹرمپ کی شکست اور بائیڈن کے اقتدار کے بعد مودی کی امیدوں کا واحد مرکز اسرائیل باقی رہ گیا ہے لیکن بدقسمتی سے وہاں بھی مودی کے دوست بنجامن نتن یاہو کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ خارجہ پالیسی اسی طرح قلاء بازی کھاتی رہی تو ہندوستان کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہوجائیں گے۔ بنگلہ دیش ، سری لنکا ، بھوٹان اور نیپال جو کبھی ہندوستان کے سہارے اپنے عوام کی خوشحالی کے فیصلے کرتے رہے، آج وہ دور ہوچکے ہیں۔ ہندوستان کا اسرائیل پر اندھا اعتماد دراصل ’’دور کے ڈھول سہانے ‘‘ جیسا معاملہ ہے ۔ وزیر خارجہ جئے شنکر نے اسرائیل کا دورہ کیا ۔ انہوں نے صدر اور نئے وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہوئے اسرائیل کو انتہائی بھروسہ مند ساتھی قرار دیا۔ صیہونی مملکت نے کبھی بھی خود کو قابل بھروسہ ثابت نہیں کیا لیکن اس بے بھروسہ ملک کو ہندوستان قابل بھروسہ قرار دے رہا ہے اور دفاع اور تجارت کے شعبوں میں ہندوستان باہمی تعاون میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل سے ہتھیار اور نئی ٹکنالوجی حاصل کرتے ہوئے اس کی معیشت کو مستحکم کیا جائے گا ۔ حال ہی میں اسرائیل سے پیگاسس جاسوسی ٹکنالوجی حاصل کرتے ہوئے اپوزیشن ، اعلیٰ عہدیداروں حتی کہ برسر اقتدار پارٹی کے سرکردہ قائدین کے فون ٹیاپ کرتے ہوئے جاسوسی کی گئی ۔ اپوزیشن کی جاسوسی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن عہدیداروں اور اپنے پارٹی قائدین کی جاسوسی کا کیا جواز ہے۔ ظاہر ہے کہ درون خانہ سب کچھ ٹھیک نہیں اسی لئے مودی نے اپنوں کو بھی شک کے دائرہ میں شامل کرلیا ہے ۔ غیر تو غیر ہے لیکن جب اپنوں پر ہی بھروسہ نہ رہے اور ان پر شک کیا جائے تو سمجھ لیں کہ زوال قریب ہے۔ اسرائیل سے دوستی ہندستان کیلئے دور رس فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔ اسرائیل سے تعلقات کا احیاء پی وی نرسمہا راؤ نے کیا تھا اور نریندر مودی نے تعلقات کو استحکام بخشا ۔ اسرائیل کی دوستی میں مودی نے ملک کی روایتی فلسطین پالیسی کو نظر انداز کردیا ہے۔ ہندوستان ہمیشہ فلسطین کاز کا حمایتی رہا ہے اور مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کے تخلیہ کی تائید کی گئی لیکن مودی حکومت فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم پر مہر بہ لب ہے۔ ہندوستان نے عرب دنیا کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ حالانکہ عرب ممالک کے ساتھ ہندوستان کا معاملہ احسان پر مبنی ہے ، کئی شعبہ جات میں عرب ممالک نے ہندوستان کی غیر معمولی مدد کی ہے۔ ویسے بھی فلسطینی مسئلہ پر عرب ممالک بھی سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ جب خود عربوں کو فلسطینیوں کی فکر نہ ہو تو ہندوستان سے تائید کی امید کرنا عبث ہے۔
کانگریس پارٹی میں سونیا گاندھی نے اپنا کنٹرول ثابت کرنے کیلئے ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں خود کو فل ٹائم صدر قرار دیا اور G-23 قائدین پر لگام کسنے کی کوشش کی ۔ سونیا گاندھی نے G-23 قائدین کو مشورہ دیا کہ وہ پارٹی امور کے بارے میں ان سے راست بات چیت کریں ، بجائے اس کے کہ میڈیا کے ذریعہ بات چیت کی جائے ۔ حالیہ دنوں میں گروپ سے وابستہ سینئر قائدین نے پنجاب سے متعلق فیصلوں پر اعتراض جتایا تھا جس کے نتیجہ میں کیپٹن امریندر سنگھ نے کانگریس پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ۔ سونیا گاندھی کی مداخلت اور آئندہ سال نئے صدر کے انتخابات کے اعلان کے بعد کانگریس میں عارضی سیز فائر ہوچکا ہے لیکن G-23 نے جو مسائل اور سوالات پیش کئے ہیں، وہ ابھی بھی برقرار ہیں۔ اس گروپ کو سونیا گاندھی کی قیادت سے نہیں بلکہ راہول گاندھی کے رویہ سے شکایت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اہم فیصلوں سے قبل سینئر قائدین سے مشاورت کی روایت ختم کردی گئی جس کے نتیجہ میں قومی سطح پر کانگریس کے استحکام میں دشواری کا سامنا ہے ۔ کانگریس کی اقتدار میں واپسی صرف راہول اور پرینکا سے ممکن نہیں ہے بلکہ مکمل قیادت کو متحدہ جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ اترپردیش کے انتخابات سے عین قبل سونیا گاندھی نے G-23 کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے لیکن اترپردیش میں پارٹی کو خاطر خواہ فائدہ ملنا آسان نہیں ہے ۔ منتشر اپوزیشن کے نتیجہ میں یوگی ادتیہ ناتھ کا موقف مستحکم ہے۔ اپوزیشن کا مشترکہ محاذ ہی بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں سماج وادی پارٹی ، بی ایس پی اور کانگریس ، تین علحدہ رخ پر کام کر رہے ہیں جس سے مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم ہوں گے اور بی جے پی کو اقتدار کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔ وہ دن گزر گئے جب قائدین کے چہروں اور ان کے خاندانی بیک گراؤنڈ کو دیکھ کر ووٹ دیئے جاتے تھے۔ ملائم سنگھ یادو ، اکھلیش یادو اور مایاوتی کی مقبولیت اور عوامی کشش ختم ہوچکی ہے۔ پرینکا گاندھی نے کسانوں کے مسائل پر جدوجہد کے ذریعہ اترپردیش میں کانگریس کے احیاء کا بیڑہ اٹھایا ہے لیکن اس کے لئے کسی مضبوط پارٹی سے اتحاد کرنا پڑے گا ۔ پنجاب کے حالات نے کانگریس قیادت کی صلاحیتوں پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ سدھو کو پردیش کانگریس کا صدر بنائے جانے کے بعد امریندر سنگھ نے پارٹی چھوڑدی لیکن نئے چیف منسٹر اور سدھو کے درمیان نیا تنازعہ کھڑا ہوچکا ہے ۔ اگر یہی حال رہا تو پنجاب میں کانگریس مدھیہ پردیش کی طرح اقتدار سے محروم ہوجائے گی۔ اسی دوران جموں و کشمیر پھر ایک مرتبہ ہلاکتوں کے معاملہ میں میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے شہریوں اور فوجیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور دہشت گردوں کی جانب سے غیر مقامی ورکرس کو نشانہ بناتے ہوئے خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا ہے ۔ تشدد میں اضافہ کی وجوہات کے بارے میں سیاسی جماعتوں کی رائے مختلف ہے لیکن سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ کشمیری عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں تاخیر نے ناراضگی پیدا کردی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیری قائدین کے ساتھ اجلاس طلب کرتے ہوئے ریاست کے موقف کی بحالی اور اسمبلی انتخابات کا وعدہ کیا تھا ۔ اس وعدہ کو کئی ماہ گزر گئے لیکن انتخابات کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا ۔ کشمیری عوام کو جمہوریت ، کشمیریت اور انسانیت سے متعلق وعدہ کی تکمیل کا انتظار ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
خدا عطا کرے اُن کو شعور کی دولت
چلے ہیں آگ بجھانے جو لکڑیاں لے کر