چندرا بابو نائیڈو کی اقتدار پر واپسی

   

جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
پڑوسی تلگو ریاست آندھرا پردیش میں بالآخر تلگودیشم سربراہ این چندرا بابو نائیڈو نے اقتدار پر کامیابی واپسی کرلی ہے ۔ انتخابات میں ان کی پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے جگن موہن ریڈی کو اقتدار سے بیدخل کردیا تھا اور آج انہوں نے آندھار پردیش کے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف بھی لے لیا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو ایک انتہائی تجربہ کار اور سنجیدہ و منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ وہ متحدہ آندھرا پردیش اورمنقسم آندھرا پردیش کی سیاست کے علاوہ قومی سطح پربھی سرگرم رول نبھا چکے ہیں۔ انہوں نے کئی اہم امور پر قومی سیاست کو ایک رخ اور جہت دینے میں بھی اہم رول ادا کیا تھا ۔ اب بھی ان کی پارٹی کو مرکز میں ایک اہم مقام حاصل ہوا ہے اور ان کی تائید مرکز کی مودی حکومت کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو آندھرا پردیش کی سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ریاست کے عوام کی نبض کو سمجھتے ہیں اور ریاست اور ریاستی عوام کو ترقی دینے کیلئے وہ سنجیدہ اقدامات کیلئے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ہر بار کے اقتدار میں ہمیشہ ترقیاتی امور کو ترجیح دہے اور سماج کے مختلف طبقات کے مابین توازن برقرار رکھنے میں بھی انہیں مہارت حاصل ہے ۔ متحدہ آندھرا پردیش میں جب تلگودیشم اقتدار میں تھی اس وقت بھی نائیڈو نے بی جے پی سے اتحاد کیا تھا اور انہوں نے ریاست میں بی جے پی کو اپنے حلقہ اثر کو وسعت دینے سے روکنے میںاہم رول نبھایا تھا ۔ انہوں نے ہمیشہ سماج کے مختلف طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاسی مجبوریوں اور مصلحتوں کے تحت انہوں نے بی جے پی کے ساتھ ایک سے زائد مواقع پر اتحاد کیا ہے ۔ آندھرا پردیش میں اسمبلی انتخابات سے قبل انہوں نے بی جے پی سے قبل از انتخابات مفاہمت کی تھی لیکن انہوں نے مسلم تحفظات جیسے اہم مسئلہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا تھا ۔ جہاں بی جے پی سارے ملک میں مسلم تحفظات کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف تھی تو نائیڈو نے آندھرا پردیش میں نہ صرف بی جے پی کو اس مسئلہ پر اظہار خیال سے روک دے تھا بلکہ خود واضح کردے تھ کہ ریاست میں تحفظات برقرار رکھے جائیں گے ۔
چندرا بابو نائیڈو کی اسی کامیاب سیاست کا نتیجہ تھا کہ آندھرا پردیش کی اقلیتوں نے بی جے پی سے اتحاد رکھنے کے باوجود تلگودیشم کو ووٹ دیا ہے ۔ اقلیتوں کی واضح تائیدکے بغیر تلگودیشم اتنی بڑی کامیابی حاصل نہیںکرپاتی جتنی اسے حاصل ہوئی ہے ۔ ایسے میں اب جبکہ چندرا بابو نائیڈو اقتدار پر واپسی کرچکے ہیں تو ان کی ذمہ داری بھی بہت بڑھ گئی ہے ۔ انہیں جہاں ریاست کی ساری صورتحال کو تبدیل کرنے کا چیلنج درپیش ہے وہیں اسے ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن کرنے کی بھی ذمہ داری ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست کی معیشت کو مستحکم کرنے اور مرکز سے خصوصی موقف اور فنڈز حاصل کرنا بھی چندرا بابو نائیڈو کی ترجیحات میںشامل ہے ۔ تاہم اس ساری ذمہ داری میں ان کی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ذمہ داری مسلم تحفظات کی فراہمی اور اس کی برقراری ہے ۔ جس طرح سے بی جے پی نے اس مسئلہ کو سیاسی رنگ دیا تھا اس کے بعد نائیڈو کو زیادہ ذمہ داری اور توجہ کے ساتھ اس مسئلہ پر کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ نائیڈو نے جس طرح سے تحفظات کی برقراری کا وعدہ کیا ہے اس کو پورا کرنا چاہئے ۔ بی جے پی سے اتحاد کی وجہ سے اس مسئلہ پر کوئی نرمی نہیں اختیار کی جانی چاہئے کیونکہ چندرا بابونائیڈو ایک سکیولر اقدار کے حامل لیڈر سمجھے جاتے ہیں اور مسلم تحفظات اس مسئلہ پر آندھرا پردیش میں ان کیلئے ایک امتحان سے کم نہیں ہوسکتے ۔ اس امتحان میں نائیڈو کو کامیاب ہونا ہے تاکہ اقلیتوں کا اعتماد برقرار رہ سکے ۔
تلنگانہ کے ساتھ باہمی تعلقات کو بھی مستحکم رکھنے کیلئے چندرا بابو نائیڈو کو اپنی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کا ثبوت دینا چاہئے ۔ بی جے پی سے اتحاد کی وجہ سے پڑوسی ریاستوں سے تعلقات کی بہتری کی رہ میں کوئی رکوٹ نہیںآنی چاہئے ۔ بی جے پی اس مسئلہ میںرکاوٹ پیدا کرسکتی ہے کیونکہ تلنگانہ میں کانگریس کا اقتدار ہے ۔ نائیڈو کو بی جے پی کے دباؤ کا شکار ہوئے بغیر اپنے ایجنڈہ اور اپنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔ آندھرا پردیش کے عوام نے بڑی امیدوں کے ساتھ نائیڈو کے حق میں اپنی رائے ظاہر کی ہے اور ان امیدوں کو پورا کرنے میں انہیں کوئی کسر باقی نہیںر