ُآس دن 624امیدواروں کے قسمت پر مہر لگ گئی ہے
چہارشنبہ کے روز لکھنو نے آزاد ہندوستان میں اپنا پہلا ڈویژن بنایاہے۔ ریاست کے اسمبلی انتخابات میں اترپردیش کے انتظامیہ مرکز نے سب چوتھے دور کی رائے دہی میں سب سے زیادہ رائے دہی کا تناسب قائم کیاہے۔
اس شہر نے دوسرا ڈویثرن 2017میں اسوقت بنایاتھا جب یہاں پر 58.54فیصد رائے دہی درج کی گئی تھی۔ ریاست کے 59اسمبلی حلقہ جو اترپردیش کے نو اضلاعوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان نو میں لکھنو شہر بھی شامل ہے جس کی مشترکہ آبادی ہے اور گلوبال کلچرل انڈیکس میں بھی تناسب بہت اونچا ہے۔
وہیں اس رسائی تک پہنچنے کا سہرہ بڑے پیمانے پر اس ہجوم کے سر جاتا ہے جو بی جے پی کی عوام دشمن پالیسیوں سے بیزار ہیں‘ اقلیتوں کے بڑے رول کو فراموش نہیں کیاجاسکتا ہے جس کی وجہہ سے رائے دہی کا تناسب اس قدر اونچائی پر پہنچ گیاہے۔
نظر انداز کئے جانے والے‘ بدسلوکی کاشکار اور دیوار کو لگادئے گئے مذکورہ اقلیتوں نے تبدیلی کی بے چینی کے ساتھ ووٹ کیاہے۔ اپنا مخالف بی جے پی رحجان دیاہے۔
برقعہ پوش خواتین اور ٹوپی لگائے ہوئے مردوں کی پولنگ اسٹیشنوں کے باہر طویل قطاریں پر مشتمل نظارے واضح طور پر یہ ظاہر کررہے تھے کہ شہر سے بھگوا مشنری کو وہ کس قدر بے چینی سے بیدخل کرنا چاہتے ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہاں پر صرف رائے دہی کے تناسب میں ہی اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ یہاں پر ایک تبدیلی بھی ائی ہے جو قابل غور ہے۔نمبروں کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ یہ شہر لکھنو سماجی تانے بانے کے لئے بھی مشہور ہے جہاں پر تعصب سے بالاتر ہوکر شیعہ سنی متحدہ طور پر ووٹ کرتے ہوئے اسکو اور مزید مضبوط کیاہے۔
یہ مجموعی طور پر بی جے پی بمقابلہ اقلیت تھا جس میں اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اُردو روزنامہ صحافت کے ایڈیٹر امان عباس نے کہاکہ ”اقلیتوں نے صرف مخالف بی جے پی جذبات کے ساتھ ووٹ دیاہے‘ ائمہ یا کسی مولانا کی کسی بھی اپیل پر توجہہ نہیں دی ہے“۔
امان اس موقع پر انتخابات سے عین قبل جاری شیعہ عالم کلب جواد کے ایک ویڈیوکا حوالہ دے رہے تھے جس میں انہوں نے واضح طورپر سماج وادی پارٹی کے بجائے بی جے پی کو ووٹ دینے کی بات کہی تھی۔
اس ویڈیو سے یہ رحجان قائم ہورہا تھا کہ شیعہ ووٹ بی جے پی کو ملیں گے۔ مگر فوری طور پر کمیونٹی کے ذمہ داران نے سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کے ذریعہ جواب کی اپیل کے خلاف بیانات جاری کرنا شروع کردئے تاکہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔
اس پوسٹوں میں یہ بات واضح کردی گئی کہ مولانا نے جو کچھ بھی کیاہے وہ بی جے پی کے سینئر لیڈران کی جانب سے انہیں ریاست او ردہلی دونوں مقامات پر وقف کے معاملات میں کی جانے والی اور شاہ مرداں ٹرسٹ میں ان کی برقراری کے لئے پیش کی گئی حمایت کے عوض کا کام ہے۔
اس فرقہ کے لوگوں نے گھر گھر جاکر دیگر شیعہ علماؤں کو اپنے ساتھ لے کر اس شیعہ عالم کے خلاف بیانات جاری کرائے۔
شیعہ کمیونٹی سے وضاحت کی کہ مذکورہ عالم بی جے پی کی حمایت بی جے پی کے رکن اپنے بھتیجا کے دباؤ میں کررہا ہے جس کا کھانے کی دوکانیں ہیں اور وہ بی جے پی مالی فوائد اٹھارہا ہے۔
ان کے قریبی رشتہ دار بھی میدان میں اتر گئے اور عوامی سطح پر ان کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بڑا نقصان ہونے سے بچایاہے۔ اس کے ایک رشتہ دار نے کہاکہ ”حق کا ساتھ دیں اور ظالم کو نہ چنیں“۔
انہوں نے کہاکہ جو نفرت اورفرقہ وارانہ تقسیم کو بڑھاوا دے رہے ہیں انہیں بیدخل کرنا چاہئے۔ شیعہ فرقہ کے ماننے والوں نے عقلی قانون کو نفاذ کرنے کااستفسار کیاہے۔
اس کمیونٹی کی یوگی سے نفرت کی وجہہ یوگی ادتیہ ناتھ کا وہ بیان بھی ہے جس میں انہوں نے کہاتھا کہ ”اگر ان کے پاس علی ؓ ہیں تو ہمارے پاس بجرنگ بلی“ ہیں۔
اس پر شیعہ کمیونٹی بڑی سخت ناراض ہے۔ شیعہ کمیونٹی کی ناراضگی کی دوسری اہم وجہہ پچھلے دوسالوں سے یوگی حکومت جانب سے ماہ محرم میں جلوس اورتعزیہ کی اجازت دینے سے انکار بھی ہے۔
جس کی وجہہ سے وہ کافی ناراض ہیں اور مذکورہ مولانا کو بیدخل کرنے کاکوئی بھی موقع انہوں نے چھوڑا نہیں ہے۔ شیعہ کمیونٹی نے اپنے اتحاد سے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ ان کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے کسی بھی فرد کو کبھی معاف نہیں کرتے ہیں۔
قسمت کے اس فیصلے کے بعد نہ صرف لکھنو بلکہ 59سیٹوں پر بھی اقلیتوں نے بی جے پی کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کیاہے جس میں پیلی بھیت‘ لکھم پور کھیری‘ سیتا پور‘ ہردوائی‘ اونناؤ‘ لکھنو‘ رائے بریلی‘ بانڈا او رفتح پور شامل ہیں۔
اس دن چوتھے دور میں 624امیدواروں کی قسمت پر مہر لگی ہے۔
اب تین مرحلوں کی رائے دہی باقی ہے جو27فبروری کے بعد3اور7مارچ کو پولنگ ہوگی۔ نتائج کا اعلان 10مارچ کو عمل میں ائے گا۔