ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق
پھر آگئے وہیں پہ جہاں سے چلے تھے ہم
پارلیمانی انتخابات کے سات مراحل میں سے چوتھے مرحلہ کی انتخابی مہم کا آج اختتام عمل میں آگیا ۔ پیر 13 مئی کو ملک کی 10 مختلف ریاستوں کے 96 حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ تین مراحل کی پولنگ مکمل ہوچکی ہے جبکہ چوتھے مرحلہ کے بعد مزید تین مراحل کی رائے دہی باقی رہے گی ۔ اس بار کے انتخابات کیلئے جس طرح کی انتخابی مہم چلائی گئی ہے اس نے سارے ملک کو ایک طرح سے مایوس کردیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے انتخابی مہم کے معیارات کو انتہائی نچلی سطح تک پہونچا دیا گیا ہے ۔ پہلے مرحلہ میں کسی حد تک حدود میں رہتے ہوئے مہم چلائی گئی تھی۔ تاہم جیسے ہی بی جے پی کو یہ اندازے ہونے لگے کہ انتخابات میں اسے نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس نے انتخابی مہم کا رخ ہی تبدیل کردینے کی کوشش کی تھی ۔ دوسرے مرحلہ کے بعد سے تو بی جے پی کے تیور مزید جارحانہ ہوگئے تھے ۔ اگر یہ جارحانہ تیور مثبت انداز میں ہوتے تو بہتر ہوتا لیکن بی جے پی نے ساری کوشش یہی کی کہ منفی سوچ و ذہنیت کے ساتھ مہم چلائی جائے ۔ یہی وجہ رہی کہ بی جے پی کی جانب سے مہم کے روح رواں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے راست ہندو ۔ مسلم کارڈ کھیلنا شروع کردیا ۔ خواتین میں خوف اور اندیشے پیدا کرنے سے بھی انہوں نے گریز نہیں کیا جبکہ یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خواتین میں مختلف گوشوں کی جانب سے اگر اندیشے پیدا کئے جا رہے ہیں تو انہیں دور کیا جائے ۔ ایسا نہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے خود اندیشے پیدا کئے ۔ اس کے علاوہ دوسرے قائدین کی جانب سے بھی عوامی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ دوسرے مرحلہ میں بھی نقصانات کے اندیشوں کو دیکھتے ہوئے تیسرے مرحلے کیلئے رام مندر کو موضوع بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں کس نے شرکت کی اور کس نے شرکت نہیں کی اس پر تبصرے کئے گئے اور انہیں نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا گیا ۔ سوشیل میڈیا کا انتہائی بیہودہ استعمال کرتے ہوئے سماج میں نفرت کو انتہائی حدود کو پہونچانے میں عار محسوس نہیں کی گئی ۔
تیسرے مرحلے کے بعد سے مہم میں مزید بیمار ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب پاکستان کے بھی تذکرے شروع کردئے گئے ۔ پاکستان کیا چاہتا ہے اور کیا نہیںچاہتا ۔ ملک میں پاکستان کس کا اقتدار چاہتا ہے ۔ کس کو شکست دینا چاہتا ہے یہ باتیں ہونے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کے انتخابات اور یہاں کی حکومت میں کسی کی تائید یا مخالفت کرسکے ۔ پاکستان آج اپنے ہی وجود اور بقاء کی جنگ لڑ۔ے میں مصروف ہے ۔ وہیںآٹے دال کیلئے عوام پریشان ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا تذکرہ کرتے ہوئے رائے دہندوںکو خوفزدہ کرنے کی پرانی تدبیر اختیار کی گئی تاہم یہ بھی کارکرد ہوتی نظر نہیںآ رہی ہے ۔ یہ دعوے بھی کئے جانے لگے کہ کانگریس لیڈر راہول گاندھی رام مندر اور رام نومی جیسے تہواروں کے مخالف ہیں۔ یہ بھی دعوی کیا جانے لگا کہ کانگریس اگر مرکز میں برسر اقتدار آجائے تو وہ ایودھیا میں رام مندر پر تالے ڈال دے گی ۔ کسی گوشے تو یہ بھی دعوی کرنے سے گریز نہیں کیا گیا کہ کانگریس رام مندر کو منہدم کردینا چاہتی ہے ۔ اس ساری صورتحال نے یہ واضح کردیا ہے کہ بی جے پی کے پاس عوام سے رجوع ہوتے ہوئے اپنے لئے ووٹ مانگنے کی کوئی وجہ نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ صرف اور صرف کانگریس سے خوفزدہ کرتے ہوئے کانگریس کے خلاف ووٹ مانگنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔
اب جبکہ چار مراحل کی مہم ختم ہوچکی ہے اور پیر کو ووٹ ڈالے جانے باقی ہیںایسے میں یہ اندیشے بھی بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ بی جے پی اور اس کے قائدین کی جانب سے آئندہ مراحل کے انتخابات کیلئے انتخابی مہم کو مزید پستی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار کردیا جائیگا ۔ ملک کے رائے دہندوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ بی جے پی خود اپنے حق میں ووٹ مانگنے کے موقف میں نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ صرف منفی ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے اور منفی ووٹ لینے کے بعد وہ ترقی کیلئے کام کرنے کی بجائے منفی ایجنڈہ کی تکمیل ہی میں سرگرم رہے گی ۔ اسی امکان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک کے رائے دہندوں کو اپنے ووٹ کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔ان کا ووٹ مثبت سوچ و فکر کے ساتھ ہونا چاہئے ۔
عوامی مباحث سے دوری کیوں ؟
پارلیمانی انتخابات کی مہم میں الزامات اور شخصی تنقیدوں کے دوران دو سابق ججس اور ایک سینئر صحافی نے کانگریس لیڈر راہول گاندھی اور وزیر اعظم نریندر مودی کو عوامی مباحث کیلئے مدعو کیا تھا ۔ راہول گاندھی حسب توقع مباحث کیلئے فوری تیار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اس پر رضامندی کا اظہار بھی کردیا ہے ۔ وزیر اعظم مودی کی جانب سے ابھی تک اس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ ایک بہترین پہل تھی اور ایک اچھا موقع تھا کہ دونوں ہی قائدین اپنے اپنے موقف سے ملک کے عوام کو اپنا ہمنواء بنانے کی کوشش کرتے اور ان کی تشویش وغیرہ کو دور کیا جاتا ۔ تاہم یہ بھی حسب توقع ہی رہا کہ وزیر اعظم نے اس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیںکیا ۔ عوامی مباحث سے دوری اختیار کی جبکہ انہیں بھی آگے آنا چاہئے تھا ۔