چوڑیوں اور کڑوں کی چھن چھن جہاں خوشیوں کی نوید بن کر دل کو بھاتی ہے، وہیں یہ آواز کسی بیٹی کی رخصتی، کسی دلہن کی آمد یا کسی تہوار کی چہکار کا اعلان بھی بنتی ہے۔ان کی جھنکار صرف زیور کی نہیں بلکہ ایک مکمل احساس، روایت اور رشتہ کی ترجمانی کرتی ہے ۔ برصغیر اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں چوڑیاں اور کڑے خواتین کے روزمرہ لباس کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ خصوصاً شادی بیاہ، عید، دیوالی یا بسنت جیسے تہواروں پر خواتین رنگ برنگی چوڑیاں پہنتی ہیں جو ان کے جوش و خروش اور تہذیبی تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔ہندو پاک کے پنجاب میں ’’چوڑیوں کی چھن چھن‘‘ لوک گیتوں میں بار بار دہرائی جاتی ہے۔ کشمیری ثقافتوں میں بھی چوڑیوں کے اپنے مخصوص انداز اور ڈیزائن موجود ہیں، جو ہر علاقے کی انفرادیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ چوڑیوں سے صرف خوبصورتی وابستہ نہیں، بلکہ یہ عورت کے احساسات کی ترجمان بھی ہیں۔شادی شدہ خواتین کیلئے چوڑیاں کئی بار محبت، وفاداری اور خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔بیوہ یا سوگوار عورت کی خالی کلائیاں معاشرتی سطح پر ایک دکھ کی علامت مانی جاتی ہیں، جو اس نازک زیور سے جڑی جذباتی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔ ہمارے شہر حیدرآباد میں چوڑیاں بنانے کی صنعت ایک بڑا معاشی شعبہ بن چکی ہے۔ ہاتھ سے بننے والی چوڑیاں، شیشہ چوڑیاں، دھات یا پلاسٹک کی چوڑیاں، آج بھی ہنرمندوں کی محنت اور مہارت کا نتیجہ ہیں ۔ چوڑیوں کی چھن چھن سے اچھی موسیقی تو شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔کسی زمانے میں صرف کانچ کی چوڑیاں ہی دستیاب ہوتی تھیں مگر اب چوڑیوں اور کڑوں کی اتنی اقسام ہیں کہ انتخاب مشکل ہو جاتا ہے، لکڑی یا دھات کے بنے ہوئے کڑے جلد اپنی خوبصورتی اور چمک کھو دیتے ہیں، اگر آپ کے پاس بھی ایسے کڑے ہیں جو اپنی چمک دمک کھو بیٹھے ہیں تو بجائے انہیں ضائع کرنے کے انہیں ری سائیکلنگ کے ذریعے دوبارہ خوبصورت اور قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے۔ جب وقت ملے تو ان کڑوں پر گوٹا یا لیس اور رنگ برنگ دھاگوں کا استعمال کر کے انہیں حسین بنائیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ آپ اس کام پر مہارت حاصل کر کے اسے آمدنی کا ذریعہ بھی بنا سکتی ہیں۔ چوڑیوں اور کڑوں کی چھن چھن صرف ایک آواز نہیں بلکہ ایک احساس، ایک روایت اور ایک تہذیب کا نام ہے۔وقت بدلنے کے ساتھ اگرچہ فیشن میں تبدیلی آتی رہی ہے، مگر چوڑیوں کا مقام آج بھی عورت کے حسن و ہنر کا لازمی حصہ ہے۔ہمیں چاہیے کہ ان روایتی علامتوں کو زندہ رکھیں اور نئی نسل کو ان کی اہمیت سے آگاہ کریں، تاکہ ہماری تہذیب کی یہ خوبصورت جھنکار آنے والے وقتوں میں بھی سنائی دیتی رہے۔