چپ رہے تو داغ بن جاؤگے تم تاریخ کا

   

سرجیکل اسٹرائیک + آرین خاں…حقیقی مسائل نظرانداز
مسلمان کسانوں سے سبق لیں… پرخلوص قیادت سے محروم

رشیدالدین
امیت شاہ نے پاکستان میں تیسرے سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دی، اروناچل پردیش پر چین سے تناؤ ، سرحدی ریاستوں میں بارڈر سیکوریٹی فورس کو زائد اختیارات اور شاہ رخ خاں کے فرزند آرین خاں کو ضمانت نہیں ملی۔ یہ وہ سرخیاں ہیں جو ہندوستان کے میڈیا میں چھائی ہوئی ہے۔ بی جے پی جب سے مرکز میں برسر اقتدار آئی ، اس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ خبریں کیا ہوں اور کس طرح پیش کی جائیں اس کا اسکرپٹ بی جے پی دفتر سے روانہ کیا جاتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں کس چیانل پر کس موضوع پر ڈبیٹ کی جائے اور کس کس کو مدعو کیا جائے اس کا ایجنڈہ بھی شائد حکومت کی جانب سے بھیجا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر وہی خبریں پیش کی جاتی ہیں جن سے عوام کے حقیقی مسائل کا کوئی تعلق نہیں۔ ’’جو تم کو ہو پسند وہی بات کہیں گے‘‘ کے مصداق ٹی وی چیانلس کو گودی میڈیا اور صحافیوں کو چاٹوکاروں میں تبدیل کردیا گیا اور ان کی زبان سے وہی باتیں نکل رہی ہیں جو مودی ۔امیت شاہ کو پسند ہوں۔ وقفہ وقفہ سے سنسنی خیز خبروں کا اسکرپٹ تیار کیا جاتا ہے تاکہ بھولے بھالے عوام اپنے مسائل اور تکالیف کو بھلاکر الجھ کر رہ جائیں۔ گزشتہ 7 برسوں میں یہی کچھ کیا جارہا ہے کہ حکومت کی ناکامیوں پر ناراض عوام کو دیگر مسائل میں الجھاکر حقیقی مسائل سے توجہ ہٹادی جاتی ہے۔ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک ہو یا نہ ہو، آرین خاں کو ضمانت ملے یا نہ ملے اس سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن میڈیا کے اینکرس کے ذریعہ ان مسائل کو عوام پر مسلط کیا جارہا ہے ۔ اینکرس گلا پھاڑ پھاڑ کر آرین خاں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آرین خاں نے اینکرس کا کوئی ذاتی نقصان کردیا ہے۔ ہندوستان کا سب سے اہم مسئلہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند مظالم اور مختلف عنوانات سے ہلاکتیں روز کا معمول بن چکی ہیں لیکن حکومت ان کی پردہ پوشی کر رہی ہے۔ جہاں تک مہنگائی کا سوال ہے ، اگر کوئی ملک میں ایسا ہوتا تو عوام بغاوت پر اتر جاتے لیکن مودی حکومت نے عوام کو کچھ اس طرح الجھاکر رکھ دیا ہے کہ مہنگائی کی مار کو چپ چاپ سہنے کے لئے تیار ہیں۔ پٹرول کے بعد اب ڈیزل کی قیمت بھی 100 روپئے تجاوز کرچکی ہیں جبکہ پکوان گیس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ قوم پرستی کے تالاب میں عوام کو کچھ اس طرح پوتر اشنان کرایا گیا کہ وہ ملک کے لئے ہر تکلیف برداشت کرنے تیار ہیں۔ مسلمانوں پر مظالم کے واقعات کو حادثات کے طور پر پیش کیا جارہا ہے تاکہ مظلوموں کی آہ پر کوئی ہمدردی اور داد رسی کے لئے نہ پہنچے۔ مودی حکومت جب کبھی بحران میں ہوتی ہے تو کوئی نیا شوشہ چھیڑدیا جاتا ہے ۔ اترپردیش کے لکھیم پور میں کسانوں کو گاڑی سے روند کر ہلاک کرنے کے واقعہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کی رسوائی بھی ہے۔ یو پی الیکشن میں بی جے پی کو نقصان کے اندیشہ کے تحت امیت شاہ نے کشمیر میں شہریوں کی ہلاکت کے حوالے سے پاکستان کو پھر ایک بار سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دے ڈالی۔ سوشیل میڈیا میں یہ مہم چلائی گئی کہ یو پی الیکشن سے قبل پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک ہوگا۔ سابق میں کئے گئے دو سرجیکل اسٹرائیک کی حقیقت کے بارے میں عوام میں ابھی بھی شبہات پائے جاتے ہیں۔ اب تیسرا بھی کیا سابق کی طرح سرجیکل اسٹرائیک ہوگا ؟ گوا میں انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے امیت شاہ نے پاکستان کو دھمکی دی لیکن وہ چین سے جاری تازہ کشیدگی پر خاموش ہوگئے ۔ چین نے ہندوستانی علاقہ پر قبضہ کرلیا ہے لیکن اس کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا خیال تک نہیں آتا۔ چین کے معاملہ میں کارروائی تو دور کی بات ہے اگر امیت شاہ دھمکی بھی دیتے ہیں تو چین سے تلخ جواب مل سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آسان نشانہ کے طورپر امیت شاہ اکثر پاکستان کا نام لے کر سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔باہمی مفادات کی تکمیل کے لئے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کہیں میچ فکسنگ تو نہیں ؟ نائب صدر جمہوریہ کے دورہ اروناچل پردیش پر چین کے اعتراض اور ساورکر کی جانب سے انگریزوں سے معافی طلبی میں گاندھی جی کے نام کو شامل کرتے ہوئے عوام کو الجھاکر رکھ دیا گیا۔ ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی تو کس کے کہنے پر، اس سے عام آدمی کا کیا تعلق ہوسکتا ہے ۔ ملک کی تاریخ میں حکومت کی جانب سے عوام کی جیب پر اس قدر ڈاکہ کبھی نہیں پڑا تھا جو صورتحال آج ہے لیکن عوام کو غیر اہم مسائل میں الجھادیا گیا ہے ۔ مورخ اس جرم کیلئے حکومت کے ساتھ میڈیا کو بھی معاف نہیں کرے گا ۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی رفتار اسی طرح برقرار رہے تو وہ دن دور نہیں جب بھوک مری اور خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوجائے گا ۔ کشمیر کے حالات کے تناظر میں امیت شاہ نے پاکستان کو دھمکی دی لیکن وہ کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں کے بارے میں کیا کہیں گے ۔ جمہوریت ، انسانیت اور کشمیریت کے تحفظ اور گولی کے بجائے میٹھی بولی اور دہلی اور کشمیر کے درمیان دلوں کے فاصلے کو کم کرنے کی جملہ بازی کہاں گئی ۔ دفعہ 370 یعنی خصوصی موقف کی برخواستگی کو دو سال مکمل ہوگئے لیکن کشمیریوں کی زندگی میں خوشحالی نہیں آئی ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیری قیادت سے ملاقات کرتے ہوئے ریاست کا درجہ بحال کرنے اور اسمبلی انتخابات کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدے برفدان کی نذر ہوگئے ۔
ملک میں پھر ایک بار یہ ثابت ہوچکا ہے کہ صرف طاقت کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ جو قوم طاقت سے محروم ہوتی ہے تو اسے ہمیشہ محکوم اور غلام بناکر رکھا جاتا ہے ۔ اترپردیش میں گاڑی سے کچل کر چند کسانوں کی موت کیا ہوئی ، اس واقعہ سے سارا ملک اٹھ کھڑا ہوا اور بی جے پی کو ڈائمیج کنٹرول کیلئے خاطیوں کے خلاف کارروائی پر مجبور ہونا پڑتا ۔ سیاہ زرعی قوانین کے خلاف کسان ایک سال سے سڑکوں پر ہیں جس سے حکومت کے ہوش اُڑ گئے ۔ مودی نے یوگی کو بچانے کیلئے کئی کھلاڑیوں کو میدان میں اتاردیا ۔ کسانوں سے اظہار ہمدردی کے لئے اپوزیشن قائدین میں دوڑ شروع ہوگئی۔ قائدین نے گرفتاریاں پیش کیں ۔ کسانوں کی ہلاکت کا معاملہ صدر جمہوریہ تک پہنچ گیا اور سپریم کورٹ نے بھی از خود کارروائی کرتے ہوئے یوگی حکومت کو پھٹکار لگائی۔ کسانوں کی ہلاکت کا واقعہ یقیناً افسوسناک اور قابل مذمت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ پر یہ ردعمل لیکن مسلمانوں کے خلاف مظالم پر خاموشی کیوں ؟ مسلمانوں کے قتل عام ، فسادات اور ہجومی تشدد میں ہلاکتوں پر سیاسی جماعتوں اور قائدین کا ایسا ردعمل کہیں اور کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ۔ کسانوں میں اتحاد کے ساتھ ان کی قیادت مضبوط ہے۔ اس کے برخلاف مسلمان منتشر اور قیادت سے محروم ہیں۔ کسان اتفاق سے سکھ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے اتحاد نے حکومت کے ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے کیونکہ کسان قیادت بکاؤ نہیں بلکہ بے لوث ہے۔ ایک چھوٹی اقلیت سکھوں کا خوف کچھ اس قدر طاری ہے کہ اندرا گاندھی دور حکومت میں گولڈن ٹمپل میں کئے گئے آپریشن بلیو اسٹار کی ہر سال یاد منائی جاتی ہے اور سکھوں سے معذرت خواہی کی جاتی ہے ۔ برخلاف اس کے ہندوستان میں مسلم کش فسادات اور قتل عام کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن کسی بھی حکومت اور پارٹی نے فسادات اور بے قصوروں کی اموات کو یاد نہیں کیا۔ اگر مسلمانوں کی قیادت مستحکم اور بے لوث ہوتی تو شائد مسلمانوں کا یہ حال نہ ہوتا۔ مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت کا موقف رکھنے کے باوجود مخلص قیادت سے محروم ہیں۔ مسلمانوں کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ سیاسی ہو کہ مذہبی دونوں میدانوں میں ایسے قائدین نہیں رہے جو حکومت کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرسکیں۔ آج کی قیادتیں تو مصلحتوں کا شکار اور مفادات کی اسیر ہیں جو دنیاوی فوائد کیلئے قوم کا سودا کرنے تیار ہوجاتے ہیں۔ علماء کی صفیں مولانا علی میاں اور مولانا ولی رحمانی کے بعد خالی ہوچکی ہیں۔ سیاسی قیادت میں سید اسماعیل ، بنات والا اور سلیمان سیٹھ کا کوئی متبادل پیدا نہ ہوسکا۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرنے والے ایسے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں۔ جس طرح بعض عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ، اسی طرح مسلم قیادت کے دعویدار سنگھ پریوار کے آگے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ کسانوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنی نئی قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا کیونکہ روایتی اور قدیم قیادتوں نے ہر موڑ پر مایوس کیا ہے۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب مشورہ دیا ہے ؎
چپ رہے تو داغ بن جاؤگے تم تاریخ کا
ظلم سہنا جرم ہوتا ہے وفاداری نہیں