چھ مراحل کی پولنگ کے بعد بی جے پی اقتدار سے دور ‘ 250 نشستیں بھی محال

   

راجستھان‘ اترپردیش‘ مہاراشٹرا‘ کرناٹک‘ گجرات و ہریانہ میں انڈیا اتحاد کو فائدے کی امید۔ ماہرین کی رائے ۔ غیر جانبدار جماعتوں کا اہم رول ہوگا
حیدرآباد 26 مئی (سیاست نیوز) ملک میں بی جے پی 250 نشستوں سے نیچے پہنچ چکی ہے اور اب اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کیونکہ پارلیمانی انتخابات کے 6 مرحلوں کی رائے دہی مکمل ہونے کے بعد جو ماہرین سیاست ہیں وہ یہ ہے کہ بی جے پی اپنے طور پر حکومت تشکیل دینے کے موقف میں نہیں رہی اور نہ باقی ایک مرحلہ میںپارٹی کو اتنی نشستیں ملیں گی کہ وہ اپنے بل پرحکومت تشکیل دینے کے موقف میں آسکے گی۔2019 انتخابات میں جہاں بی جے پی کو ملک میں 303 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور بی جے پی نے بہ آسانی جادوئی ہندسہ 272 کو پار کرکے حکومت تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی تھی اب ویسی صورتحال نہیں رہی بلکہ بعض ماہرین کا کہناہے کہ بی جے پی کو نقصانات کی پابجائی کی کوشش میں مزید نقصانات ہو رہے ہیں۔ ملک میں عام انتخابات اور اب تک ہوئی 6 مرحلوں کی پولنگ میں رائے دہندوں کے نظریات کو دیکھتے ہوئے سیاسی ماہرین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہندستان میں بی جے پی اپنے طور پر حکومت بنانے کے موقف میں نہیں ہے بلکہ این ڈی اے اتحاد کے 272 تک پہنچنے پر بھی بعض گوشوں سے شبہات کا اظہار کیا جا رہاہے حالانکہ این ڈی اے اتحاد کو اقتدار کے امکان پر کئی گوشوں سے پیش قیاسی کی جاچکی ہے اور دعویٰ کیا جا رہاہے کہ این ڈی اے جادوئی ہندسہ پار کرلے گا ۔ اگر این ڈی اے کو حکومت بنانے میں رکاوٹ ہوتی ہے تو وزیر اعظم کی تبدیلی کیلئے اتفاق رائے پیدا کرکے این ڈی اے کو موقع دیا جاسکتا ہے۔ 6 مرحلوں کی رائے دہی اور عوامی نظریات کے متعلق ماہرین کا کہناہے کہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو کئی ریاستوں بالخصوص راجستھان‘ اترپردیش‘ مہاراشٹرا‘ کرناٹک‘ گجرات کے علاوہ ہریانہ میں زبردست فائدہ ہونے جا رہاہے اور ان ریاستوں میں جہاں انڈیا اتحاد میں شامل جماعتوں کی کوئی طاقت نہیں تھی ان میں اگر انہیں نشستیں ملتی ہیں تو مجموعی طور پر بی جے پی کا نقصان ہوگا ۔ رائے دہی کے بعد عوامی رائے کی جانکاری کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے والے ماہر یوگیندر یادو نے 6 مرحلوں کی رائے دہی کے بعد جو رائے پیش کی ہے اس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی اب 250 نشستوں سے نیچے کہیں ہے اور اگر آئندہ مرحلہ میں بھی یہی ماحول برقرار رہتا ہے تو بی جے پی کیلئے جادوئی ہندسہ پار کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی طرح ملک کے سرکردہ یوٹیوبرس جو اپنے چیانلس پر رائے دہی کے بعد زمینی حقائق پیش کر رہے ہیں اور عوام کی رائے پر گفتگو کر رہے ہیں ان کا بھی کہناہے کہ بی جے پی اب جادوئی ہندسہ 272 سے دور ہوچکی ہے اور آخری مرحلہ میں 57پارلیمانی نشستوں پر جہاں رائے دہی ہونی ہے اگر ان میں بھی پارٹی کو نقصان ہوتا ہے تو اس کا راست فائدہ ’انڈیا اتحاد ‘ کو ہوگا۔ انڈیا اتحاد کے متعلق سیاسی ماہرین کا کہناہے کہ اتحاد نے انتخابات کی مہم کے دورا ن عوام کی نفس کو پکڑتے ہوئے بے روزگاری اور مہنگائی جیسے موضوعات پر ووٹ مانگے جبکہ بی جے پی بالخصوص وزیر اعظم نے مہنگائی کا لفظ تک انتخابی مہم میں استعمال نہیں کیا اور نہ اس پر قابو پانے کسی منصوبہ کا اعلا ن کیا۔ اسی طرح انہوں نے بے روزگاری کے خاتمہ پر بھی اپنی حکومت کے اقدامات یا منصوبہ بندی کے متعلق کوئی بات نہیں کہی بلکہ انتخابی ریالیوں میں وزیر اعظم نے کئی مرتبہ فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی ۔ اس کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا تو اپوزیشن قائدین کی تضحیک کے ذریعہ بے بنیاد الزامات عائد کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن اتحاد کو عوامی تائید کی بنیاد پر کہا جا رہاہے کہ اتحاد کو بھی قومی سطح پر بی جے پی جتنی ہی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ۔ انڈیا اتحاد کو استحکام کی صورت میں ایسی جماعتیں جو این ڈی اے میں شامل ہیں اور مودی سے اتفاق نہیں رکھتی وہ بھی انڈیا اتحاد کا حصہ بن سکتی ہیں علاوہ ازیں وہ جماعتیں جو کسی اتحاد میں شامل نہیں ہیں ان کی بڑی تعداد انڈیا اتحاد کا حصہ بن سکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق انڈیا اتحاد میں شامل قومی قائدین بالخصوص سینیئر سیاستداں 6 مرحلوں کی رائے دہی کے رجحانات کا جائزہ لینے کے بعد ان سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطہ شروع کرچکے ہیں جو این ڈی اے یا انڈیا اتحاد کے ساتھ نہیں ہیں ۔ بتایاجاتا ہے کہ ملک بھر میں غیر این ڈی اے اور غیر انڈیا اتحاد کی جماعتوں کو 40تا45 نشستوں پر کامیابی کے امکانات ہیں جو آئندہ حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔3