اس زمینِ موت پروردہ کو ڈھایا جائے گا
اک نئی دنیا، نیا آدم بنایا جائے گا
چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بی آر گوائی پر کل کمرہ عدالت میں ایک ایڈوکیٹ نے جوتا پھینکنے کی کوشش کی ۔ یہ حرکت کسی مجرم یا عام آدمی نے نہیں بلکہ ایک سینئر اور تجربہ کار وکیل نے کی ہے ۔ اسی وجہ سے یہ حرکت اور واقعہ مزید تشویش کا باعث قرار دئے جاسکتے ہیں۔ خاص طور پر اس لئے کہ حملہ آور وکیل نے یہ دعوی کرتے ہوئے حملہ کرنے کی کوشش کی کہ ہم سناتن کی توہین برداشت نہیں کرینگے ۔ اس کیلئے چیف جسٹس کے کچھ حالیہ ریمارکس کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مذہبی جذبات کو ملک میں اس حد تک اشتعال دلایا گیا ہے کہ اب عمر رسیدہ وکیل بھی اس بیمار ذہنیت کا شکار ہونے لگے ہیں اور ملک کے سب سے بڑے جسٹس کو ہی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہاہے ۔ یہ حرکت کمرہ عدالت میں کی جا رہی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سماج میں فرقہ پرستی اور بیمار ذہنیت کا زہر کس حد تک گھولا جاچکا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس وکیل کو چند گھنٹوں کی پوچھ تاچھ بلکہ رسمی سے سوالات کے بعد گھر جانے کی اجازت بھی دیدی گئی اور اس وکیل نے اپنی اس شرمناک حرکت پر کسی طرح کے افسوس یا پچھتاوے کا اظہار بھی نہیں کیا ہے ۔ یہ ایک افسوسناک اور تشویشناک پہلو ہے کہ ہمارے ملک کے چیف جسٹس بھی خود اپنے ہی کمرہ عدالت میں نشانہ بنائے جا رہے ہیں اور اس کیلئے ایسا عذر پیش کیا جا رہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے ۔ ملک کے تمام ججس قانون کی بالادستی کیلئے قانون کے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کے فیصلے پسند نہیں آتے ۔ اگر مذہبی اشتعال کا سہارا لیتے ہوئے ملک کے چیف جسٹس کو ہی نشانہ بنایا جائے تو اس سے زیادہ افسوس اور تشویش کی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی ۔ جہاں تک پولیس یا نفاذ قانون کی ایجنسیوں کا سوال ہے تو ان کا رویہ اور بھی افسوسناک ہے کیونکہ انہوں نے صرف معمولی سے سوالات کرتے ہوئے اس وکیل کو گھر جانے کی اجازت دیدی اور یہ عذر پیش کیا کہ اس تعلق سے کوئی رسمی شکایت درج نہیں کروائی گئی ہے ۔ کیا پولیس اس غلط حرکت کا از خود نوٹ لیتے ہوئے کارروائی نہیں کرسکتی ؟ ۔
اس کے علاوہ سوشیل میڈیا پر اس تعلق سے جو بحث شروع ہوئی ہے وہ اور بھی افسوسناک ہے ۔ سوشیل میڈیا پر ہندوتوا وادی گوشوں کی جانب سے اس طرح کے حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ حالیہ عرصہ میں مخالف ہندو تبصرے زیادہ کئے جا رہے تھے جس کے نتیجہ میں یہ واقعہ پیش آیا ہے ۔ کچھ گوشوں کا تاثر ہے کہ ملک میں ہندووں کے جذبات کا پاس و لحاظ کیا جانا چاہئے ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے ۔ یہ جو جواز پیش کیا جا رہا ہے اور سوشیل میڈیا پر جس طرح کے تبصرے کئے جا رہے ہیں وہ صورتحال کی سنگینی کو اور بھی واضح کردیتے ہیں۔ سماج میں کس طرح سے زہر گھولا گیا ہے اور ملک کی عدلیہ اور چیف جسٹس تک کو یہ بیمار ذہنیت رکھنے والے عناصر بخشنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمارے ملک کے چیف جسٹس نے انتہائی تحمل اور برد باری کا مظاہرہ کیا ہے اور اس حرکت پر مشتعل ہونے کی بجائے اپنے کام کاج کو ترجیح دی ۔ انہوں نے ایک مثال ضرور قائم کی ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملک اور ملک کے عوام ایسی حرکت پر بھی خاموش ہوجائیں اور پولیس یا سکیوریٹی ایجنسیوں کا یہ جواز قبول کرلیں کہ اس معاملہ میں کوئی رسمی شکایت درج نہیں کروائی گئی ہے ۔ اس معاملے میں پولیس کو از خود نوٹ لیتے ہوئے کارروائی کرنی چاہئے تھی اور کی جانی چاہئے ۔ بار اسوسی ایشن نے وکیل کو معطل کرتے ہوئے اچھا فیصلہ کیا ہے اور بار اسوسی ایشن کو پولیس میں شکایت بھی درج کروانی چاہئے ۔
ملک کے عوام کا عدلیہ پر اعتماد اور یقین ہے ۔ عدلیہ کا وقار سب سے اعلی ہے اور اس کو تار تار کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جانی چاہئے اور نہ ہی ایسی حرکت کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کا جو گودی میڈیا ہے وہ بھی اس معاملہ پر کسی طرح کا ہنگامہ کھڑا کرنے اور ایسی ذہنیت رکھنے والوں کے خلاف کارروائی پر زو ردینے کو تیار نہیں ہے ۔ اگر یہی حرکت کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کی جانب سے کی گئی ہوتی تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ۔ اس کے سارے خاندان کے خلاف کارروائی کی جاتی اور بلڈوزر چل گیا ہوتا ۔ لیکن موجودہ معاملہ میں ایسا نہیں کیا گیا اور دوہرے معیارات اختیار کئے گئے جو افسوسناک ہے ۔