ایک سال سے زیادہ کے عرصہ سے منی پور جل رہا ہے ۔ سینکڑوں افراد وہاں اپنی زندگیاں ہار بیٹھے ہیں۔ سینکڑوں خاندان اجڑ گئے ہیں ۔ کئی خواتین بیوہ ہوگئی ہیں اور بچے یتیم ہوگئے ہیں۔ سینکڑوں گھروں کو مسمار کردیا گیا ہے ۔ خواتین کے ساتھ انتہائی شرمناک اور مذموم واقعات پیش آئے ہیں۔ انہیں برہنہ کرکے انسانیت کو شرمسار کیا گیا ہے ۔ اس سب کے دوران ریاست کے چیف منسٹر بیرن سنگھ اپنے عہدہ سے چمٹے رہے تھے اور انہوںنے ان سارے انتہائی شرمناک اور مذموم واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔ سال 2024 کے آخری دن انہوں نے منی پور کے عوام کے نام پیام جاری کرتے ہوئے معذرت خواہی کی ہے ۔ یہ معذرت خواہی صرف عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہی ہے جن کے گھر اس تشدد میں اجڑ گئے ہیں۔جو تباہی منی پور میں ایک سال سے زائد کے عرصے میں ہوئی ہے وہ سارے ہندوستان کیلئے باعث تشویش رہی ہے اس کے باوجود نہ منی پور کے چیف منسٹر نے استعفی دیا ہے اور نہ ہی ملک کے وزیر اعظم نے ریاست کا دورہ کیا ہے ۔ منی پور کے تشدد اور ریاست کا دورہ نہ کرنے پر خود ملک کے وزیراعظم کوب ھی معذرت خواہی کرنی چاہئے تھی اور منی پور کے چیف منسٹر اگر خود سے مستعفی نہیں ہوئے تو انہیں برطرف کیا جانا چاہئے تھا ۔ اس کے برخلاف منی پور کے چیف منسٹر صرف زبانی ہمدردی دکھاتے ہوئے معذت خواہی کر رہے ہیں اور وزیراعظم کے منی پور کا دورہ نہ کرنے کا جواز پیش کر رہے ہیں اور ان کی مدافعت کر رہے ہیں۔ ہر اہمیت کے حامل اور معمولی واقعات پر بھی وزیراعظم اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں ۔ جن معاملات میں انہیں رد عمل دینے کی ضرورت نہیں بھی ہوتی ہے ان معاملات پر بھی وہ بیان بازی سے گریز نہیں کرتے لیکن ایک سال سے زیادہ کے عرصہ تک منی پور جلتا رہا وہاں قتل وغارت گری ہوتی رہی اس کے باوجود وزیر اعظم نے اس مسئلہ پر زبان نہیں کھولی تھی اور نہ ہی ریاست کا دورہ کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو تسلی دینا ضروری سمجھا تھا ۔ معذرت خواہی تو ملک کے وزیر اعظم کو ہی کرنی چاہئے تھی لیکن وہ اب بھی خاموش ہیں۔
وزیراعظم کے منی پور کا دورہ نہ کرنے کی وجوہات بتانے کی بجائے چیف منسٹر برین سنگھ نے بی جے پی کی روایت کو برقرار رکھا ہے اور منی پور میں گذشتہ ایک سال سے جاری تشدد کو کانگریس کی غلطیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ملک کے ہر مسئلہ کو کانگریس کی ناکامی سے جوڑتے ہوئے بی جے پی خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ گیارہ برس سے ملک میں بی جے پی کا اقتدار ہے ۔ گیارہ برس سے نریندر مودی ہی ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اگر واقعی کانگریس نے کچھ غلطیاں کی ہونگی توگیارہ برس میں ان غلطیوں کو سدھارنے کی ذمہ داری بی جے پی پر عائد ہوتی ہے ۔ گیارہ سال کا وقفہ بھی کچھ کم نہیں ہوتا ۔ اس میں ساری صورتحال کو الٹ کر بہتر بنایا جاسکتا تھا اور بنایا جانای چاہئے تھا ۔ برین سنگھ کو یہ جواب دینا چاہئے کہ گذشتہ ایک دہے سے زیادہ عرصہ میں بی جے پی کی مودی حکومت نے حالات کو بہتر بنانے کیلئے کچھ کیوں نہیں کیا ہے ۔ صرف کانگریس پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے بری الذمہ ہونا بی جے پی حکومتوں کی نا اہلی کا واضح اور کھلا ثبوت ہے ۔ اس پر خود برین سنگھ اور دوسرے بی جے پی قائدین کو جواب دینا چاہئے اور ملک کے میڈیا کو بھی اس پر سوال کرنا چاہئے تھا لیکن میڈیا بھی تلوے چاٹنے میں مصروف ہے اور اس نے بھی ذمہ دار حکومتوں سے اس تعلق سے سوال نہیں کیا ۔ سوال کرنا تو دور کی بات ہے خود بی جے پی کی زبان بولتے ہوئے کانگریس پر ہی ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔
جہاں چیف منسٹر منی پور نے معذرت خواہی کی ہے وہیں انہیں اپنی اور مرکزی حکومت دونوں کی ناکامیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ محض زبانی جمع خرچ کرنا چاہتے تھے ۔ انہیں حقیقی معنوں میں ریاست کی صورتحال سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔ وہ معذرت خواہی کے ذریعہ بھی سیاست ہی کرنا چاہتے ہیں۔ سارا ملک اس حقیقت سے واقف ہے کہ ایک سال تک منی پور کے عوام کو جس طرح حالات کی مار سہنے کیلئے مجبور کیا گیا تھا وہ انتہائی افسوسناک تھا ۔ کم از کم اب جب معذرت خواہی کا خیال آیا ہے تو ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔