چیف منسٹر گجرات بھی مستعفی

   

Ferty9 Clinic

جہان آرزو آواز ہی آواز ہوتا ہے
بڑی مشکل سے احساس شکستِ ساز ہوتا ہے
چیف منسٹر گجرات بھی مستعفی
اب چیف منسٹر گجرات وجئے روپانی بھی مستعفی ہوگئے ہیں۔ گذشتہ تقریبا چھ ماہ کے عرصہ میں یہ اپنے عہدے سے استعفی پیش کرنے والے بی جے پی کے چوتھے چیف منسٹر ہیں۔ اس سے قبل کرناٹک کے چیف منسٹر کے عہدہ سے بی ایس یدیورپا نے استعفی دیدیا تھا ۔ اس سے پہلے اترکھنڈ میں چند ماہ کے عرصہ میں دو چیف منسٹروںنے استعفی پیش کیا تھا ۔ اس طرح اب وجئے روپانی چوتھے چیف منسٹر ہیں جو مستعفی ہوئے ہیں۔ گجرات میں وجئے روپانی پانچ سال قبل اس وقت چیف منسٹر بنے تھے جب آنندی بین پٹیل نے اس عہدہ سے استعفی پیش کیاتھا ۔ مسلسل چیف منسٹروں کے استعفوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بی جے پی کیلئے ریاستی سطح پر سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے اور بی جے پی صرف چہرے بدلتے ہوئے عوام سے دوبارہ رجوع ہونا چاہتی ہے ۔ آئندہ سال ملک کی پانچ ریاستوں میںانتخابات ہونے والے ہیں ان میں اترکھنڈ اور اترپردیش کے علاوہ کرناٹک اور گجرات بھی شامل ہیں۔ بی جے پی نے تین ریاستوں میں تو چیف منسٹروں کو تبدیل کردیا ہے ۔ حالانکہ وجئے روپانی نے اپنے استعفی کی وجہ نہیں بتائی ہے لیکن کہا یہی جا رہا ہے کہ بی جے پی ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھی اور خود گجرات کے عوام میںان کی کارکردگی پر ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ خاص طور پر کورونا بحران کے وقت میں وجئے روپانی نے عوام کی توقعات کو پورا نہیں کیا ہے اسی وجہ سے بی جے پی نے حالات کو بھانپتے ہوئے انتخابات سے چند ماہ قبل ہی انہیں خاموشی کے ساتھ تبدیل کردینے ہی میں عافیت سمجھی ہے ۔ چند ماہ قبل اترپردیش میں بھی حالات پارٹی کیلئے ابتر رہے تھے ۔ وہاں بھی کئی ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ نے چیف منسٹر کی خود انہیں بھی عدم دستیابی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور صورتحال کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے دہلی سے اپنے نمائندے روانہ کرتے ہوئے حالات کا جائزہ لیا تھا اور کسی طرح سمجھا منا کر سبھی کو خاموش کرلیا گیا کیونکہ بی جے پی کیلئے دوسری ریاستوں کی طرح اترپردیش میں چیف منسٹر کو بدلنا آسان نہیں ہے اور وہاں آدتیہ ناتھ ہیں جو شائد مرکزی قیادت کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔
بی جے پی ترقی اور ایجنڈہ کی سیاست کرنے کا دعوی کرتی ہے لیکن وہ ذات پات کے ایجنڈہ پر عمل پیرا ہوتی ہے ۔ وجئے روپانی جین طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور گجرات میں جین برادری صرف دو فیصد ہے ۔ چونکہ عوام میں بھی وجئے روپانی کی کارکردگی کے تعلق سے ناراضگی پائی جاتی ہے اور گجرات میں آبادی کے تناسب سے پاٹی دار برادری کے ووٹ بہت زیادہ ہیں اس لئے کہا یہ جا رہا ہے کہ بی جے پی ریاست میںپاٹی دار طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی لیڈر کو گجرات کا چیف منسٹر بناسکتی ہے ۔ ساری صورتحال سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی کے کئی چیف منسٹرس کارکردگی کے اعتبار سے عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہے ہیں اور خود مرکزی قیادت بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہو پا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ جن جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں وہاں وہاں چیف منسٹروں کو بدلا جا رہا ہے ۔ اترپردیش میں خود نریندر مودی اور امیت شاہ نے توجہ کرتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے کیونکہ اگر اترپردیش میں چیف منسٹر کی تبدیلی کی جاتی تو سب سے پہلے تو آدتیہ ناتھ کی بغاوت کا خطرہ ہوتا دوسرا سارے ملک کیلئے ایک منفی پیام جاتا کیونکہ بی جے پی نے خود آدتیہ ناتھ کو کٹر ہندوتوا چہرے کے طور پر ابھار کر پیش کیا ہے ۔ اسی لئے بمشکل تمام اترپردیش میں حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن دوسری ریاستوں میں بی جے پی کیلئے یہ سب کچھ آسان نہیں رہا ہے اور وہ چیف منسٹروں کوتبدیل کرتی جا رہی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کی کئی ریاستی حکومتیں بھی ریاستی قیادت کی وجہ سے کام نہیں کر رہی ہیں بلکہ ہر ریاست میں نریندر مودی اور امیت شاہ کا چہرہ اور نام بتاتے ہوئے ووٹ حاصل کئے جا رہے ہیں۔ کہیں بھی چیف منسٹر کا چہرہ اہمیت کا حامل نہیں رہا ہے ۔ اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ کسی کو قیادت کے طور پر ابھرنے کا موقع نہ مل پائے دوسرا یہ کہ ساری پارٹی اور حکومت صرف دو شخصیتوں کے گرد گھومتی رہے ۔ بی جے پی کی اس روش کو ملک کے عوام کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ریاستی حکومتوں کو مرکزی چہروں کی بجائے ان کی اپنی کارکردگی کی اساس پر پرکھا جانا چاہئے اور اسی بنیاد پر ووٹ کیا جانا چاہئے ۔
صحافتی اداروں پر بھی دھاوے
ہندوستان میں جہاں صحافت کی آزادی کا پورا خیا ل رکھا جاتا تھا اب صحافتی ادارے بھی حکومت کی انتقامی کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہیں اور انہیں بھی مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ویسے تو تمام ہی مخالفین کو بی جے پی کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکومت کے اشاروں پر تحقیقاتی ایجنسیاں کام کرتے ہوئے اس کی مدد کر رہی ہیں لیکن صحافتی اداروں کو نشانہ بنانے کا عمل سب سے زیادہ مذموم کہا جاسکتا ہے ۔ کئی صحافتی ادارے ایسے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں یا خود حکومت سے مطمئن نہیں ہیں اور وہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کا صحافتی اور حمہوری حق بھی ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور بی جے پی کسی بھی طرح کی مخالفت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور وہ ہر مخالف آواز کو دبانے اور کچلنے کیلئے کمر کس چکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کئی اداروں پر دھاوے کرنے کے بعد مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں نے کل بھی دو تا تین نیوز ایجنسیوں کے دفاتر اور ان کے ذمہ داران کے مکانات وغیرہ پر بھی دھاوے کئے ۔ کسی غلط کاری پر ایسے دھاوے تو کئے جاسکتے ہیں لیکن محض سیاسی مخالفت یا حکومت سے عدم اتفاق کی بنیاد پر ایسے دھاووںک ی روایت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔