اُجڑا چمن ہے کس لئے یہ پاسباں سے پوچھئے
کیوں پھول ہیں یہ خوں میں تر مہرباں سے پوچھئے
ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی ایک دیرینہ اور قدیم مسئلہ ہے ۔ اس پر دونوںملکوںکے مابین ایک سے زائد مواقع پر بات چیت بھی ہوئی ۔ سفارتی کوششیں بھی ہوئیں اور کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ۔ سرحدات پر فوجی اجتماعات بھی کئے گئے تھے ۔ حکومت کی جانب سے ہندوستانی سرزمین پر کسی قبضہ کی تردید کی گئی ۔ سٹیلائیٹ سے جو تصاویر وقفہ وقفہ سے دستیاب ہوئیں اور میڈیا کے مختلف گوشوں میںان کی تشہیر کی گئی ان سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین میں کئی مربع میل پر چین نے قبضہ کرلیا ہے ۔ یہ قبضہ قدیم بھی ہے اور یہ دعوے بھی کئے جاتے ہیں کہ یہ نئے قبضے جات بھی ہیں۔ چین نے سرحدی علاقوں میںدہشت مچا رکھی ہے اور اپنے جارحانہ تیور کے ذریعہ تمام صورتحال کو مزید پیچیدہ اور ابتر بننے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ ہندوستان وقفہ وقفہ سے اس مسئلہ پر چین کے ساتھ اعتراض بھی کرتا رہا ہے ۔ چین سے احتجاج بھی درج کروایا گیا ہے ۔ چین نے ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت بھی کی ہے لیکن اس کے اپنے منصوبوںپر بھی عمل کیا ہے ۔ ہندوستان کی سرحدات میں در اندازی کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اس مسئلہ کو ایک انتہائی اہم اور حساس مسئلہ قرار دیا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں اس تعلق سے تشویش بھی پائی جاتی ہے تاہم یہ یقین بھی ہے کہ ہماری مسلح افواج پوری دلیری اور بہادری کے ساتھ چین کے جارحانہ عزائم کو ناکام بناتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی چین پانے جارحانہ منصوبوںاور عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو پائیگا ۔ تاہم اس انتہائی حساس اور اہمیت کے حامل مسئلہ پر ہندوستان میںسیاست شروع ہو گئی ہے ۔ اس مسئلہ کو قومی سلامتی اور قومی اہمیت کے حامل مسئلہ کی طرح دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کو سیاست سے دور رکھا جانا چاہئے اور اس مسئلہ پر کسی طرح کی سیاست کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ اپوزیشن جماعتیں ہوں یا پھر حکومت کے ذمہ داران ہوں سبھی کو اس پر انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ دنیا کے سامنے اور خاص طور پر جارحانہ عزائم رکھنے والے چین کے سامنے یہ تاثر پیدا نہیںہونا چاہئے کہ ہندوستان میں اپنی سرحدات کے مسئلہ پر اتفاق رائے نہیں ہے اور یہاں اس پر سیاست کی جا رہی ہے ۔
کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے کل چین کے ساتھ سرحد کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین ہندوستان کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہا ہے اور ہندوستان میں حکومت سو رہی ہے ۔ اس مسئلہ پر ملک میںسیاست شروع ہوگئی ہے ۔ جہاںصورتحال کی کشیدگی سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا وہیں اس بات سے بھی انکار کی گنجائش نہیںہے کہ ملک میں اس پر اتحاد ہونا چاہئے ۔ جو بھی موقف حکومت کا ہے اس سے سبھی کو اتفاق کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کے بیان اور دعووںپر سوال کرنے کی بجائے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اپوزیشن جماعتوں اور اس کے قائدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی تشویش سے ضرور حکومت کو واقف کروائیں اور حکومت سے صورتحال کے تعلق سے تبادلہ خیال بھی کیا جائے تاہم کوئی بیان بازی ایسی نہیںہونی چاہئے جس کے ذریعہ ملک کے اتحاد اور اتفاق رائے پر کوئی سوال پیدا ہونے لگے ۔ جہاں تک حکومت کی بات ہے تو اس کو بھی انتہائی حساس اور اہمیت کے حامل اس مسئلہ پر واضح موقف رکھتے ہوئے اپوزیشن قائدین کو سرحد کی حقیقی صورتحال سے واقف کروانا چاہئے ۔ حکومت کی جانب سے سرحدات کی حفاظت اور صورتحال سے نمٹنے کے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ان سے بھی اپوزیشن جماعتوں کو واقف کروایا جانا چاہئے ۔ سر عام بیان بازیاں کرنے کی بجائے حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کرتے ہوئے اقدامات کی تفصیل سے واقف کروانا چاہئے ۔
اپوزیشن جماعتیں ہوںیا قومی سلامتی کیلئے فکرمند گوشوں کو حکومت کو اعتماد میں لیتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ چین ہمیشہ ہی جارحانہ عزائم کا اظہار کرتا رہا ہے ۔ اس نے سرحدات پر صورتحال کو کشیدہ کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ اس سے نمٹنے کے معاملے میں جہاں پوری احتیاط کی ضرورت ہے وہیں پوری شدت کے ساتھ ملک کی سرحدات کا دفاع کیا جاناچاہئے ۔ چین ہو یا پھر کوئی اور ملک ہو اس کو ہندوستان کی سرحدات کی خلاف ورزی کی اجازت قطعی نہیںدی جاسکتی ۔ حکومت اور اپوزیشن کو اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے اور اظہار خیال کا طریقہ اگرچیکہ مختلف ہوگا لیکن سبھی کو ملک کے مفادات کی فکر لاحق ہونی چاہئے ۔
مہاراشٹرا میںاپوزیشن کا ہلہ بول
مہاراشٹرا میںسیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے پیش نظر ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا کی نگرانی میں اپوزیشن اتحاد نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے اور آج حکومت کے خلاف ہلہ بول احتجاج کیا گیا ۔ شیوسینا اور اپوزیشن مہاوکاس اگھاڑی کا دعوی ہے کہ مراٹھا حکمران شیواجی کی مبینہ ہتک کے خلاف یہ احتجاج کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح سے مہا وکاس اگھاڑی نے سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کے حامل برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن انتخابات کیلئے اپنی مہم شروع کردی ہے ۔ در اصل گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی جانب سے ایک ایسا تبصرہ کیا گیا تھا جس کو مہاراشٹرا اور مراٹھا عوام نے شیواجی کی ہتک سے تعبیر کیا ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کی جانب سے اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی گئی اور کئی طرح کی وضاحتیں کی گئیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن شیوسینا اور اس کی اتحادی جماعتوںنے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ایکناتھ شنڈے حکومت کے خلاف ہلہ بول احتجاج کیا گیا ۔ شیوسینا ادھو ٹھاکرے گروپ کی جانب سے ایکناتھ شنڈے کی بغاوت کے بعد ریاست میں عوام کی تائید کو برقرار رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیںاور ان کے پیش نظر یہ احتجاج اور بی ایم سی کے انتخابات اہمیت کے حامل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مہا وکاس اگھاڑی کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔