چین کی کورونا وائرس کے خلاف جیت اور امریکہ پر سفارتی فتح

   

جیوتی ملہوترا
کورونا وائرس متاثرین کی تعداد عالمی سطح پر ایک ملین سے تجاوز کرگئی اور تقریباً 54 ہزار افراد موت کے منہ میں پہنچ گئے ہیں۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس عالمی وباء میں کمی کے بعد دنیا کیسے دکھائی دے گی۔ چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کورونا وائرس پر فتح حاصل کرلی ہے کیونکہ وہاں حالیہ عرصہ کے دوران نئی اموات کی کوئی اطلاع نہیں۔ چین، امریکہ سے عالمی طاقت کا موقف حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی معیشت میں دو کھرب ڈالرس مشغول کرنے کا اعلان کیا۔ اس بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کا مقصد چین کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کا مقابلہ ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یوروپی یونین جو وائرس کی وباء سے شدید متاثر ہوئی ہے وہ موجودہ شکل میں اپنی بقاء کو یقینی بنا پائے گی اور کیا وزیر اعظم نریندر مودی جنہوں نے جنوبی ایشیائی ممالک سے رجوع ہونے کی کوشش کے طور پر ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کیا تھا وہ علاقائی لیڈر کے طور پر ابھریں گے؟ ویسے بھی مودی نے بڑی بے اعتنائی کے ساتھ یہ قدم اٹھایا تھا۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے اس سوال کا جواب آسان ہے۔ ہندوستان پہلے سے ہی صحت کے شعبہ میں حد سے زیادہ بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ فی الوقت اسے مزدوروں خاص طور پر نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی مشکلات کا چیالنج درپیش ہے۔ ہر مزدور اپنے گھر واپسی کا خواہاں ہے۔ ہندوستان کی ایک دفاعی میڈیکل ٹیم مالدیپ بھی گئی ہوئی ہے تاکہ وہاں موجود کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں سے نمٹ سکے۔ یہ ٹیم بھوٹان بھی گئی ہے جہاں فیس ماسک اور وینٹی لیٹر کی قلت پائی جاتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو دنیا کے اسٹیج پر دو بڑی طاقتیں ہیں ایک امریکہ اور دوسرا چین۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیسے یہ دونوں ملک موجودہ بحران کو سیاسی لحاظ سے سرفہرست رہنے کے لئے اپنے موقف مضبوط کرتے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو اگلے 8 ماہ میں دوسری میعاد کے لئے انتخابات کا سامنا ہے۔ انہوں نے دو ہفتہ قبل COVID-19 کو چینی وائرس قرار دیا تھا۔ ان کے اس بیان پر چین نے شدید برہمی ظاہر کی۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر اپنی خود کی کورونا وائرس ٹاسک فورس کو لے کر کافی سنجیدہ ہے۔ کورونا وائرس نے امریکہ کو شدید متاثر کیا ہے جہاں تاحال 2 لاکھ 45 ہزار 380 افراد متاثر اور 6095 فوت ہوئے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود جو اشارے مل رہے ہیں اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے بیجنگ کے خلاف اپنے جارحانہ لفظی حملوں کو روک دیا ہے اور نرم لہجہ اختیار کیا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ چین، امریکہ سے کی گئی اپنی تجارتی معاملات سے منحرف ہو جائے۔ چین نے امریکہ سے زرعی اشیاء خریدنے کا عہد کیا ہے۔ سی این این کے مطابق صدر ٹرمپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی معیشت کی حالت ان کے اپنے دوبارہ انتخاب کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے اور انہیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ چین جس نے 80 ارب ڈالر مالیتی زرعی و سمندری اشیاء خریدنے کا وعدہ کیا ہے اپنے وعدہ سے منحرف بھی ہوسکتا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ حال ہی میں G-7 ممالک نے کورونا وائرس کو ووہان وائرس کا نام دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا جس پر صدر ٹرمپ کو مایوسی ہوئی۔ جہاں تک صدر چین ژی جن پنگ کا سوال ہے وہ راست طور پر ٹرمپ کے لفظی حملوں کا جواب نہیں دے رہے ہیں بلکہ انہوں نے یہ کام اپنے سرکاری عہدہ داروں کے تفویض کردیا ہے۔ پہلے چینی ترجمان لیجان ژہو نے بات کی اور امریکہ پر الزام عائد کیا کہ اسی نے سب سے پہلے یہ وائرس اکتوبر 2019 میں ملٹری گیمز کے دوران ووہان لایا تھا۔ 12 مارچ کو لیجان ژہو نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ امریکی فوج ہی ہے جس نے یہ وباء ووہان لائی۔ اس معاملہ میں امریکہ کو وضاحت پیش کرنی چاہئے۔ چینی سفیر متعینہ جنوبی افریقہ لن ساونٹیان نے بھی ٹرمپ کی جانب سے کورونا وائرس کو چینی وائرس کہنے کا جواب دیا اور کہا کہ جب امریکہ میں فلو کی لہر چل پڑی تھی ہم نے اسے امریکی فلو نہیں کہا تھا۔ بعض امریکی سیاستداں اِسے چینی وائرس کہہ رہے ہیں جو بے بنیاد اور ناقابل قبول ہے۔

بیجنگ اس بحران کو عالمی سطح پر اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ چین کی جانب سے اپنے سدابہار دوست ملک پاکستان کو لاکھوں کی تعداد میں فیس ماسک اور ٹسٹنگ کٹس بطور عطیہ پیش کئے گئے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین نے اس طرح کے عطیات جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کو بھی پیش کئے۔ چین نے اپنی میڈیکل ٹیمیں ایران، عراق اور پاکستان کو روانہ کیں جبکہ سری لنکا جیسے ملک کو 500 ملین ڈالرس کا قرض بھی دیا۔ اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ادویات، و طبی آلات سے لدے طیارے اٹلی روانہ کئے جو کورونا وائرس سے شدید متاثر ہے۔ اس کے برعکس امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جنوبی کوریا سے ٹسٹنگ کٹس روانہ کرنے پر زور دے رہے تھے۔ چینی میڈیا کے مطابق چین سے میڈیکل سپلائز لے کر پہلا کارگو طیارہ نیویارک بھیجا گیا۔ آپ کو بتادیں کہ نیویارک امریکہ میں کورونا وائرس کا مرکز و منبع بنا ہوا ہے۔ میڈیا کے مطابق اس طیارے میں 12 ملین دستانے، ایک لاکھ 30 ہزار N-95 ماسک، 1.7 ملین یعنی 17 لاکھ سرجیکل ماسک، 50 ہزار گاؤنس، سنیٹائزرس کی ایک لاکھ 30 ہزار بوتلیں اور 36 ہزار تھرما میٹرس رکھ کر بھیجے گئے۔ سیاسی تجزیہ نگار پہلے ہی کورونا وائرس کے تئیں امریکہ کے ردعمل کا مغربی افریقہ میں 2014 کے دوران پھوٹ پڑے ایبولا وائرس کی صورتحال سے کررہے ہیں۔ جب اس نے نہ صرف میڈیکل ٹیمیں اور سپلائز روانہ کیں بلکہ فورسیس بھی بھیجیں۔ دراصل ٹرمپ نے دو کھرب ڈالرس کے جس پیاکیج کا اعلان کیا اس میں سے صرف 1.15 ارب ڈالرس امریکہ سے باہر مصارف کے لئے مختص کئے گئے۔ جہاں تک ہندوستان کا معاملہ ہے مودی ٹرمپ کے اچھے دوست ہیں لیکن انہوں نے کورونا وائرس کو چینی وائرس کا نام دینے سے متعلق امریکہ کے موقف سے اتفاق نہیں کیا بلکہ ہندوستانی وزارت امور خارجہ نے اس مسئلہ پر سفارتی خاموشی برقرار رکھنا پسند کیا کیونکہ خاموشی الفاظ سے کہیں زیادہ آواز میں حقیقت بیان کردیتی ہے۔