امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جس وقت سے دوسری معیاد کی ذمہ داری سنبھالے ہیں اس وقت سے ساری دنیا میں اتھل پتھل مچانے والے اقدامات کر رہے ہیں یا بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی جہاں امریکہ سے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تھا وہیں انہوں نے گرین لینڈز کو حاصل کرلینے کی بات کی ۔ انہوں نے غزہ پر قبضہ حاصل کرلینے کا اعلان بھی کیا اور کئی ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ کے شہریوں کو اپنے علاقوں میں آباد کرلیں۔ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کی درآمدات پر شرحیں عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے معاشی اتھل پتھل بھی مچادی تھی ۔ روس ۔ یوکرین جنگ کے مسئلہ پر بھی وہ لگاتار ایسے بیانات دے رہے ہیں جو کسی نہ کسی فریق کیلئے قابل قبول نہیں ہوپا رہے ہیں۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ کی توجہ ایران پر مرکوز ہوئی ہے ۔ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی ہے کہ وہ نیوکلئیر معاہدہ کو یقینی بنائے ۔ اگر ایران ایسا نہیں کرتا ہے تو پھر انہوں نے ایران کے خلاف جنگ یا بمباری کی دھمکی بھی دے ڈالی ۔ وہ کسی بھی ملک یا علاقہ کو اس طرح دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس طرح احکام جاری کر رہے ہیں جیسے وہ امریکہ کے نہیں بلکہ ساری دنیا کے صدر ہیں اور کسی بھی ملک کی اپنی کوئی سالمیت ہی نہیں رہ گئی ہے ۔ ایران نے بھی ٹرمپ کی دھمکیوں کو مسترد کردیا ہے اور جوابی کارروائی کا انتباہ دیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایران نے ٹرمپ کی دھمکیوں کی اقوام متحدہ میں شکایت بھی درج کروادی ہے ۔ ایران کے رد عمل سے قطع نظر صورتحال ٹرمپ کی دھمکیوں کی وجہ سے خطرناک یا تشویشناک ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ ٹرمپ نے جس طرح سے دوسری معیاد میں جارحانہ تیور کے ساتھ حکمرانی کا آغاز کیا ہے وہ نہ صرف امریکہ بلکہ ساری دنیا کیلئے مسائل کی وجہ بنتی نظر آ رہی ہے ۔ ٹرمپ کا انداز اور ان کے جارحانہ تیور ساری دنیا میں اتھل پتھل کی وجہ بن رہے ہیں اور اس کی تشویش نہ صرف دیگر ممالک کے علاوہ یوروپ میں بھی پیدا ہوگئی ہے ۔ یوروپ میں بھی ٹرمپ کے بیانات پر شدید تشویش پائی جاتی ہے اور یوروپی ممالک اپنے موقف کا تعین کرنے میں لگے ہیں۔
جہاں تک ایران کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ کرلیا تھا ۔ اس پر عمل آوری کا بھی آغاز ہوگیا تھا ۔ ڈونالڈ ٹرمپ ہی کی پہلی معیاد میں اس معاہدہ سے امریکہ نے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔ ٹرمپ نے ابھی تک اس معاہدہ سے امریکہ کی دستبرداری کی وجہ نہیں بتائی تھی اور اب وہ کس طرح کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اس کو بھی واضح نہیں کر رہے ہیں۔ ٹرمپ دوسری معیاد میں ایسا لگتا ہے کہ ایک نیا ورلڈ آرڈر رائج کرنا چاہتے ہیں اور اس میں صرف امریکہ کی اجارہ داری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کے یہ عزائم ساری دنیا کیلئے خطرناک بن سکتے ہیں۔ ایسے وقت میں ایران کو دھمکیوں کا آغاز کیا گیا ہے جب دنیا کے مختلف خطوں میں بے چینی اور بد امنی پھیلی ہوئی ہے ۔ ساری دنیا میں تیسری عالمی جنگ کے اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیںاور بیشتر ممالک کو اپنے وجود اور اپنی بقاء کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔د نیا کے جو حالات ہیں وہ امن و امان کو فروغ دینے کے متقاضی ہیں لیکن امریکہ اور ڈونالڈ ٹرمپ اس کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر فوجی کارروائیوں اور جنگ و جدال کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور جہاں تک ٹرمپ کا ٹریک ریکارڈ ہے اس سے یہ اندیشے تقویت پاتے ہیں کہ ان دھمکیوں کو عملی شکل بھی دی جاسکتی ہے۔ ایسے میںساری دنیا میں جو تباہی آئے گی وہ ناقابل بیان ہوسکتی ہے ۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ساری دنیا کو فوری حرکت میںآنے کی ضرورت ہے تاکہ جنگ و جدال کے اندیشوں کو کم سے کم کیا جاسکے اور امن و امان کے فروغ کیلئے اقدامات کئے جاسکیں۔
ایران ہو یا دوسرے ممالک ہوں سب کو اپنی بہتری کے فیصلے کرنے کا حق ہے ۔جوہری معاہدہ ضروری بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ امریکہ کی شرائط پر نہیں ہوسکتا ۔ امریکہ کو پہلے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے پہلے اس معاہدہ سے دستبرداری اختیار کیوں کی تھی اور اب دوبارہ وہ معاہدہ کیلئے اصرار کیوں کر رہا ہے ۔ عالمی اداروں کو کٹھ پتلی کا رول ترک کرتے ہوئے امریکہ اور خاص طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کے جارحانہ تیور کو ختم کرنے کیلئے سرگرم ہونا چاہئے قبل اسکے کہ تاخیر ہوجائے ۔ آج کی دنیا جنگ و جدال کی متقاضی ہرگز نہیں ہوسکتی ۔