کرنا پڑا ہے تلخ حقیقت کا سامنا
دور اک سنہرا ہم کو دکھا کر گزر گیا
امریکہ میںصدر کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ نے کل حلف اٹھالیا ۔ انہوں نے ذمہ داری سنبھال لی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے بڑے پیمانے پر تبدیلیوں اور امریکی پالیسی میں رد و بدل کے اشارے بھی دئے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر کی حیثیت سے دوسری بار منتخب ہوئے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب میں جس طرح سے دنیا بھر کے بڑے تاجرین کو فوقیت دی گئی اس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ تجارت کو آگے بڑھانے کے منصوبوں کے ساتھ اس عہدہ پر واپس ہوئے ہیں۔ ویسے بھی خود ٹرمپ ایک بڑے تاجر رہے ہیں اور اب وہ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے بڑے تاجرین کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور امریکی معیشت کو مزید مستحکم کرنے کے منصوبے رکھتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی افتتاحی تقریب میںجو تقریر کی اور جس طرح کا انہوں نے لب و لہجہ حلف برداری اور اس کے بعد بھی اختیار کیا تھا اس سے ٹرمپ کے تیور جارحانہ دکھائی دئے ہیں اور اس بات سے کوئی بعید نہیں کہ وہ اپنے دور صدارت میں عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے منصوبے پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے صدارتی عہدہ سنبھالنے سے قبل بھی اسی طرح کے اشارے دئے تھے اورعہدہ سنبھالنے کے بعد بھی ان کے تیور میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ یہ تیور مزید مستحکم دکھائی دئے ہیں۔ جہاں وہ کناڈا کے تعلق سے سخت موقف اختیار کر رہے ہیں وہیں میکسیکو کی سرحد پر انہوں نے ایمرجنسی نافذ کردی ہے ۔ امریکہ کو ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن سے علیحدہ کرلیا ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک کیلئے بھی انہوں نے اپنی پالیسی پر غور و فکر شروع کردیا ہے ۔ وہ شمالی کوریا کی صورتحال پر بھی نظر رکھتے ہیں اور یوکرین میںجاری جنگ کو ختم کرنے کا بھی ان کا منصوبہ ہے ۔ اس کے علاوہ کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے مشرق وسطی کے تعلق سے بھی ایک خاکہ تیار کیا ہوا ہے اور ان کے دباؤ کی وجہ سے ہی غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طئے پایا ہے ۔ اب ٹرمپ کی ذمہ داری ہے کہ اس جنگ بندی کو دوام عطا کرنے کیلئے اسرائیل پر اثر انداز ہوں اور فلسطینیوں کو راحت پہونچائی جاسکے ۔
ٹرمپ نے صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد کہا تھا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی چاہتے ہیں۔ وہ غزہ کی جنگ کو ختم کرنا چاہتی ہے اور یوکرین میں بھی جنگ کو ختم کرنے کے حامی ہیں۔ جہاں تک غزہ کی جنگ کی بات ہے تو یہ جنگ بندی تو ہوگئی ہے تاہم اسے عارضی کہا جا رہا ہے ۔ ٹرمپ کو مشرق وسطی کے تعلق سے وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے فسلطینی عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ارض فلسطین پر یہودی نوآبادیات کا سلسلہ روکا جانا چاہئے اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق بحال کئے جانے چاہئیں۔ انہیں پرسکون زندگی گذارنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب فلسطین ۔ اسرائیل تنازعہ کی مستقل یکسوئی کی جائے ۔ دو قومی نظریہ کو آگے بڑھاتے ہوئے مملکت فلسطین کے قیام اور اس کے استحکام کو بھی یقینی بنایا جائے ۔ ٹرمپ اس معاملے میں اسرائیل پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور انہیں ایسا کرنا چاہئے ۔ مسئلہ فلسطین کو مزید طوالت اختیار کرنے کا موقع نہیں دیا جاسکتا ۔ اسرائیل کی جارحیت کے نتیجہ میں فلسطین میں جو تباہی ہوئی ہے وہ ناقابل بیان کہی جاسکتی ہے ۔ اس طرح کی صورحال کا اعادہ نہ ہونے پائے اور تباہ حال فلسطین کی تعمیر جدید ہواس کیلئے ٹرمپ کو مرکزی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ علاقہ کے دوسرے ممالک کو بھی اس عمل میں حصہ دار بنایا جاسکتا ہے اور ایک ایسا حل دریافت کیا جانا چاہئے جو فلسطین کے وجود کو یقینی بنائے ۔ علاقہ میں دیرپا امن کا قیام اسی طرح سے ممکن دکھائی دیتا ہے ۔
ٹرمپ کو اپنے دوسرے دور صدارت میںدنیا بھر میں امن و امان کی بحالی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جہاں کہیں جنگ و جدال یا خانہ جنگی کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے اسے ختم کرنا چاہئے ۔ انسانی جانوں کے اتلاف کو روکا جانا چاہئے ۔ انسانیت کو شرمسار ہونے سے بچایا جانا چاہئے ۔ دنیا میں پرسکون ماحول کے ذریعہ معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور دنیا کے اربوں باشندوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو اس جانب توجہ دیتے ہوئے دنیا کو ایک پرسکون مقام بنانے اور جنگ و جدال کے خاتمہ پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح سے وہ اپنی دوسری معیاد کو یادگار بناسکتے ہیں۔