امریکہ میںصدارتی انتخابات مکمل ہو رہے ہیں۔ جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایک بار پھر صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں۔ حالانکہ اس بار کا مقابلہ بہت زیادہ سخت دکھائی دے رہا تھا تاہم جس اعتبار سے نتائج سامنے آْئے ہیںان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ نے یہ کامیابی بآسانی حاصل کرلی ہے ۔ ٹرمپ نے اس بار کے انتخابات کیلئے بہت زیادہ شدت کے ساتھ مہم چلائی تھی ۔ کملا ہیرس کی انتخابی مہم بھی کچھ کم نہیں تھی تاہم وہ امریکہ کے عوام کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں۔ ٹرمپ کی کامیابی کا حالانکہ باضابطہ اعلان حکام کی جانب سے کیا جانا باقی تھا تاہم خود ٹرمپ نے نہ صرف اپنی کامیابی کا اعلان کردیا بلکہ انہوں نے کامیابی کی تقریر کرتے ہوئے امریکہ کے عوام سے اظہار تشکر بھی کیا ہے اور کہا کہ امریکہ کو بہتر بنانے کی مہم کا آغاز ہو جائے گا ۔ انہوںنے امریکی عوام سے کہا کہ ان پر جو گولی چلائی گئی تھی اس میں وہ زندہ بچ گئے تھے اور شائد خدا نے انہیںایک خاص مقصد کیلئے زندہ رکھا ہے ۔ ٹرمپ نے حالانکہ اپنی پالیسیوں اور پروگرامس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے تاہم ان کے دو ریمارکس اہمیت کے حامل کہے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ دنیا میں جنگ کی شروعات نہیںکریں گے بلکہ جنگ کا خاتمہ کریں گے ۔ ٹرمپ کے یہ ریمارکس انتہائی اہمیت کے حامل کہے جاسکتے ہیںکیونکہ دنیا بھر میںمختلف مقامات پر حالات انتہائی سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کسی مقام یا ملک کا نام تو نہیں لیا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کا اشارہ یوکرین ۔ روس جنگ اور اسرائیل کی جنگ کی سمت ہوسکتا ہے ۔ یوکرین کو پہلے ہی سے یہ خدشات لاحق تھے کہ اگر امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کو کامیابی حاصل ہوجاتی ہے تو روس کے خلاف جنگ کیلئے اسے ملنے والی امداد بند ہوسکتی ہے ۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے ہی یوکرین کو امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی جانب سے مالی اور فوجی امداد بے دریغ دی جا رہی ہے اور اسی کے بل پر یوکرین جنگ میں روس کے سامنے اب تک کھڑا دکھائی دے رہا ہے ۔ یوکرین کو اسی بات پر تشویش ہے ۔
دوسری اور سب سے اہم جنگ اسرائیل کی ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے جس طرح سارے علاقہ میں دہشت مچائی گئی ہے اور جس طرح یکے بعد دیگرے نشانے لگائے جا رہے ہیں اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم پر عمل کیا جا رہا ہے وہ بھی ساری دنیا کیلئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے ۔ سابقہ جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اب تک اسرائیل کی مسلسل حمایت کی جاتی رہی ہے اور ڈونالڈ ٹرمپ سے بھی اس معاملے میں کسی مختلف موقف کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ تاہم انہوں نے جنگ ختم کرنے کی بات کہی ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح سے مشرق وسطی پر اپنا موقف تیار کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے کیا کچھ عزائم اور منصوبے پیش کرتے ہیں۔ اسرائیل کی جارحیت کی حمایت ماضی میں جہاںبائیڈن انتظامیہ نے کی تھی وہیں ٹرمپ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں تھے ۔ اس کے باوجود جنگ ختم کرنے کی بات کہی گئی ہے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا کچھ منصوبے رکھتے ہیں۔ جہاں تک دنیا کے دوسرے ممالک کی بات ہے تو انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مملکت فلسطین کے قیام اور انصاف کی بنیادوں پر ہی علاقہ میںامن قائم کیا جاسکتا ہے ۔ اس کیلئے اسرائیل کو اپنی جارحیت اور توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس معاملے میں ڈونالڈ ٹرمپ کیا کچھ کرپاتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں یہ دیکھنا اہمیت کا حامل ہوگا ۔ ان کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اور سابقہ حکومت کے تجربہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے موقف میں کسی بڑی تبدیلی کی امید فی الحال نہیں کی جاسکتی ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی ہندوستان کیلئے بھی اہمیت کی حامل کہی جاسکتی ہے ۔ ٹرمپ کے دور میں ہندوستان ۔ امریکہ کے تعلقات میں کافی بہتری آئی تھی اور دونوںملکوںکے روابط پہلے سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوئے تھے ۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کے تعلقات کی اپنی جگہ اہمیت مسلمہ ہوتی ہے ۔ ان دونوںجمہوریتوں کو اور ان کی قیادتوں کو متحد ہوکر کام کرتے ہوئے ساری دنیا میں امن و امان کے قیام کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہوگی اور دنیا کے جن جن خطوں میں حالات دگرگوں ہیں انہیں بہتر بنانے اور انصاف پر مبنی ورلڈ آرڈر بنانے کیلئے کام کرنا چاہئے ۔ یہی دنیا اورد نیا کے لوگوں کی امید ہوسکتی ہے ۔