مزہ ہے قید میں لیکن رہا ہونا پڑے گا
تجھے اے زندگی آخر فنا ہونا پڑے گا
امریکہ کے کئی شہروں میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ تشدد کے واقعات بھی پیش آ رہے ہیں۔ آگ زنی کے واقعات کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں۔ کچھ لوگ زخمی ہوئے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ اور کیلیفورنیا کے گورنر کے مابین بھی لفظی تکرار شروع ہوگئی ہے ۔ ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ لاس اینجلس میں صدر ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈز کی نفری کو تعینات کیا گیا ہے ۔ امریکی میرینس کی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی ہے ۔ اس کے باوجود صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے بلکہ احتجاج کئی اور شہروں تک پھیل رہا ہے ۔ پہلے لاس اینجلس میں احتجاج شروع ہوا ۔ نیویارک بھی اس سے متاثر رہا اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ٹیکساس میں بھی لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ یہ شائد پہلای موقع ہے جب کسی امریکی صدر کے خلاف اتنی شدت سے مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ جس وقت سے ٹرمپ دوسری معید کیلئے امریکہ کی صدارتی ذمہ داری سنبھالے ہیں اس کے بعد سے ان کے مختلف اقدامات پر جہاں عالمی سطح پر اتھل پتھل ہو رہی ہے اور کئی ممالک میں تشویش کی لہر پیدا ہوئی ہے وہیں خود امریکہ میں بھی عوام ٹرمپ کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسورن کا الزام ہے کہ صدر ٹرمپ کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں بحران کی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور لوگ احتجاج کا راستہ اختیار کر رہے ہیں اور تشدد کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے یہ بحران پیدا کیا ہے اگر وہ خود یہ بحران حل نہیں کرسکتے تو وہ ( گیون نیوسورن ) خود اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ جو صورتحال ان احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے وہ بے چینی کی کیفیت پیدا کر رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ صدارت کی دوسری معیاد کے ابتدائی مہینوں ہی میں ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف گرتا چلا جا رہا ہے ۔ امریکہ کے عوام خود ٹرمپ کے کئی فیصلوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لاس اینجلس میں شروع ہوئے مظاہروں کو روکنے ٹرمپ نے نیشنل گارڈز کو متعین کرنے کا اعلان کردیا حالانکہ کیلیفورنیا کے گورنر نے اس کی مخالفت کی تھی ۔ ٹرمپ نے اس اعتراض کو خاطر میں لائے بغیر اپنے فیصلے پر عمل آوری کردی ہے ۔
کہا جا رہا ہے کہ فی الحال ٹرمپ کے امیگریشن قوانین پر اعتراض کرتے ہوئے یہ مظاہرے شروع ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکرای ملازمین کی کٹوتی کے فیصلے پر بھی گذشتہ مہینوں میں امریکہ میں مظاہرے کئے گئے تھے اور ان میں امریکی عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی تھی ۔ ٹرمپ نے ٹیسلا کے سربراہ ایلان مسک کو ذمہ داری دیتے ہوئے سرکاری ملازمین پر لگام کسنے کے اقدامات کئے تھے ۔ اب خود ٹرمپ اور ایلان مسک کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور ایلان مسک ٹرمپ انتظامیہ سے علیحدہ ہوچکے ہیں۔ ٹرمپ اور مسک کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے ۔ ٹرمپ جس طرح کے اقدامات کر رہے ہیں وہ نہ صرف امریکہ میں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی بے چینی کی کیفیت پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ سب سے پہلے ٹرمپ نے گرین لینڈز جزیرہ کو خریدنے کی بات کی تھی ۔ پھر انہوں نے کناڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے کے ارادہ کا اظہار کیا تھا ۔ پھر انہوں نے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے منصوبہ کا اعلان کیا اور مختلف ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو اپنے ممالک میں بسا لیں۔ اسی طرح دنیا کے کئی ممالک پر انہوں نے تجارتی شرحیں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ جوابی شرحوں کے نفاذ پر ٹرمپ نے اپنے منصوبے پر تین ماہ کیلئے عمل کو ملتوی کردیا تھا ۔
اس طرح یہ واضح ہو رہا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے اور اعلانات بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹرمپ اپنے جارحانہ تیور پر نظرثانی کریں۔ امریکہ میں حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے اور پھر امریکی فیصلوں سے دنیا بھر میں ہونے والے اثرات کا بھی جائزہ لیں۔ ساری دنیا میں اتھل پتھل پیدا کرن نہ دنیا کے مفاد میں ہوسکتا ہے اور نہ امریکہ کے مفاد میں ہوسکتا ہے ۔ اس حقیقت کو ٹرمپ کو ذہن میںرکھتے ہوئے اپنے فیصلوںاور اقدامات پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ جتنا جلد ممکن ہوسکے نظم و سکون کو بحال کرنے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے ۔