کاش! لال قلعہ سے وزیراعظم کا خطاب ایسا ہوتا

   

پی چدمبرم

آج سے 75 سال قبل ہندوستان زندگی اور آزادی کیلئے جاگ اُٹھا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے الفاظ میں ’’ہم ہندوستانیوں نے تقدیر کے ساتھ ایک کوشش کی‘‘ اور پھر بعد میں آنے والی حکومتوں نے ہمارے دستور یا آئین کے تحفظ اس کی حفاظت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اسی طرح ان حکومتوں نے ہمارے ملک کے اقتدار اعلیٰ اس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع اور بقاء کو یقینی بنانے کیلئے غیرمعمولی اقدامات کئے۔ ان حکومتوں نے ہمارے وطن عزیز کی معاشی ترقی کو آگے بڑھانے اور اپنے عوام کو صحت، تعلیم، روزگار (ملازمتیں) فراہم کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہاں بے شک کچھ خرابیاں اور کچھ ناکامیاں بھی رہیں لیکن جب کبھی ہم نے ٹھوکر کھائی جب کبھی ہمارے قدم لڑکھڑائے اور ہم گر پڑے ہم نے خود کو سنبھال لیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ جمہوریت ہماری غلطیوں کو سدھارنے اور ہماری ناکامیوں پر قابو پانے میں کامیاب رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہر سال 15 اگست کو اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم جمہوریت کی راہ پر پوری دیانت داری اور سچائی و راست گوئی کے ساتھ گامزن رہیں گے۔
سچائی کا وقت
میں نے اس تاریخی مقام سے اس تاریخی لال قلعہ کی فصیلوں سے آپ کو ایک نہیں دو نہیں 8 مرتبہ مخاطب کیا ہے۔ میں نے آپ سے بحیثیت ایک وزیراعظم بحیثیت ایک پارٹی لیڈر کے بات کی، آج میں آپ سے ایک مختلف انداز میں مختلف موضوعات پر بات کرتا ہوں۔ میں آپ کے ایک ہم وطن کی حیثیت سے بھی بات کرنا چاہتا ہوں جو آپ کے دکھ درد، خدشات، امیدوں اور اُمنگوں کو سمجھتا ہے اور ان میں آپ کے ساتھ شریک بھی ہے۔ برائے مہربانی میرے ساتھ میری باتوں کو جب تک میں سچ کہہ رہا ہوں، برداشت کریں، ویسے بھی میں جو سچ کہہ رہا ہوں، وہ کچھ پہلوؤں سے تکلیف دہ بھی ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں میری حکومت نے ایسی غلطیوں کا ارتکاب بھی کیا ہے، جن سے ہماری معیشت متاثر ہوتی ہے۔ میری حکومت کی پہلی غلطی نوٹ بندی رہی۔ مجھے یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ نوٹ بندی نافذ کرنے سے کالادھن (بلیک منی) کا خاتمہ ہوگا۔ کرپشن یا بدعنوانی میں کمی آئے گی اور دہشت گردی اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ میں نے اس بارے میں گورنر ریزرو بینک آف انڈیا کے مشورہ کو بھی نظرانداز کردیا حالانکہ انہوں نے مجھے نوٹ بندی نافذ کرنے کے خلاف خبردار کیا تھا۔ پریشانی کا باعث بنی۔ اس کے ہی نتیجہ میں کثیر تعداد میں لوگ روزگار اور ملازمتوں سے محروم ہوئے۔ یہاں تک کہ میرے اس اقدام کے نتیجہ میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں MSMEs بند ہوئیں۔
میری دوسری بڑی بلکہ بھیانک غلطی جی ایس ٹی متعارف کروانا تھی۔ جی ایس ٹی قوانین کا انتہائی خراب انداز میں مسودہ تیار کیا گیا اور بڑی عجلت میں اُسے منظور کرلیا گیا۔ کاش! میں اس وقت اپنے چیف اکنامک اڈوائزر اور اپوزیشن قائدین کی بات سنی ہوتی، ان کے مشوروں کو قبول کیا ہوتا اور جی ایس ٹی کی ایک معتدل یا اوسط شرح اپنایا ہوگا۔ جی ایس ٹی سے صرف مرکز اور ریاستوں میں اختلافات ہی پیدا ہوئے بلکہ کاروباری و تجارتی برادری میں بڑی ناراضگی پھیل گئی اور پھر افراط زر یا مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بعد میں میں یہ حقیقت جان گیا کہ میں نے وہ غلطی کی جسے سدھارنا مشکل ہوگیا۔ ایسی غلطی جس کا سدھار میرے ہاتھ میں نہیں رہا۔ ہاں میرا ارادہ ہے کہ ملک کے ممتاز ماہرین معاشیات اور اپوزیشن قائدین کے ساتھ صلاح و مشورہ کرکے موجودہ جی ایس ٹی کی جگہ جی ایس ٹی 2.0 متعارف کراؤں۔
میری دوسری غلطیاں
میں نے دوسری بے شمار غلطیوں کا بھی ارتکاب کیا ہے۔ کچھ مزاحمت کے بعد میں نے اپنے قدم پیچھے ہٹالئے۔ نئے حصول اراضی قانون کو کمزور کرنے سے متعلق کوشش اچھے وقت پر روک دی۔ میں یہ حقیقت بھی جان گیا کہ میری حکومت نے جن تین زرعی قوانین منظور کئے، وہ بنیادی طور پر غلطی تھی اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں نے وہ قوانین واپس لے لئے۔ میں نے دوسری کئی غلطیاں بھی کی ہیں جو دھماکو غلطیاں ہیں جیسے نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر)، شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور حالیہ عرصہ کے دوران اعلان کردہ اگنی پتھ اسکیم وغیرہ میں آپ تمام کو یقین دلاتا ہوں میں بہت جلد ان غلط اقدامات بالفاظ دیگر اس غلط مہم جوئی سے دستبردار ہوجاؤں گا کیونکہ یہ قوانین اور اقدامات ملک کے عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کررہے ہیں اور ان سے نفرت و عداوت کو فروغ مل رہا ہے۔ اسے میرے وطن کے لوگو! میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے بارے میں بعض گوشوں کی جانب سے جو دباؤ ڈالا جارہا ہے، میں اس دباؤ کے آگے نہیں جھکوں گا اور نہ ہی ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کے دباؤ کو قبول کروں گا۔ میں آپ سے یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ میں جی ایس ٹی شرحوں میں کمی کی ہدایات جاری کروں گا، ساتھ ہی پٹرول اور ڈیزل پر محاصل میں اور پکوان گیاس کی قیمتوں میں کمی کی ہدایت جاری کروں گا۔
خلیج اور تقسیم
ماضی میں کئی موقعوں پر میرے وزراء اور میں نے میری حکومت کی جانب سے کئے گئے مختلف اقدامات سے متعلق بلند بانگ دعوے کئے، میں نے ہر شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروانے کا وعدہ کیا۔ میں نے ہر سال ملک میں 2 کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ وعدے دراصل انتخابی موسم کے دوران استعمال کئے جانے والے ’’جملے‘‘ تھے یعنی جملہ بازی تھی۔ اس مقام سے ہی میں نے دعویٰ کیا تھا کہ 2022ء تک کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوجائے گی۔ ہر خاندان کا اپنا ذاتی مکان ہوگا اور ملک کی معیشت 5 کھرب ڈالرس کی سطح تک پہنچ جائے گی۔ ہر گھر کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ یہ دعویٰ سچ نہیں ہیں، کیونکہ NFHS-5 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دیہی علاقوں کے 25.9 فیصد اور شہری علاقوں کے 6% مکانات یا گھرانوں میں بیت الخلاء نہیں ہے۔ نیتی آیوگ اور اسمارٹ پاور انڈیا کی جانب سے کئے گئے سروے میں یہ پایا گیا کہ ملک کی 13% آبادی کو پاور گرڈ سے جوڑا نہیں گیا یا اِس آبادی نے بجلی استعمال ہی نہیں کی۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے بات کرتے ہوئے ان مقاصد کی تکمیل کی نظرثانی شدہ تاریخ کا اعلان کروں گا۔ آج ملک کیلئے سب سے فکر والی بات یا مسئلہ بڑھتی فرقہ وارانہ تقسیم ہے۔ میں قبول کرتا ہوں کہ میری پارٹی کو تعصب و جانبدارانہ روش ترک کرنی ہوگی اور اشتعال انگیز و تخریبی بیانات و تقاریر کو روکنے کیلئے بہت کچھ کم کرنا ہوگا۔ نفرت کو بڑھاوا دینے والو ںکو سزا دینی ہوگی اور ہندوستان کے کثرت میں وحدت اس کی ہمہ مذہبی تہذیب کا جشن منانا ہوگا اور اپنی حکومت اور اداروں کو زیادہ سے زیادہ شمولیاتی بنانا ہوگا جن میں تمام طبقات کے لوگوں کو نمائندگی دی جانی چاہئے۔ بھائیو بہنو! ہمارا سفر بہت طویل ہوگا، میں خود اس عظیم ملک اور اس کے عوام کی خدمات کا عہد کرتا ہوں، میری آپ تمام سے درخواست ہے کہ اس تاریخی سفر میں میرے ساتھ شامل ہوں۔ جئے ہند