اسٹاک ہوم۔ 21 ممالک میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد پر کی گئی ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کام کے دباؤ اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ 30 فیصد تک زیادہ ہوجاتا ہے۔اس تحقیق کیلیے 2002ء میں شروع ہونے والے دی پرسپیکٹیو اربن رْرول ایپی ڈیمیولوجی (پیور) نامی بین الاقوامی مطالعے سے حاصل شدہ اعداد و شمار استعمال کیے گئے۔پیور کے نام سے شہرت رکھنے والا یہ مطالعہ آج بھی جاری ہے جس میں اب تک ہندوستان سمیت 26 ملکوں کے دو لاکھ سے افراد شامل ہوچکے ہیں۔تازہ تحقیق یونیورسٹی آف گوٹنبرگ، سویڈن کی پروفیسر انیکا روزن گرین کی قیادت میں 21 ملکوں کے دو درجن سے زیادہ ماہرین نے انجام دی جس کے نتائج آن لائن ریسرچ جرنل جاما نیٹ ورک اوپن کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔ان تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ اس تحقیق کیلیے جن 21 ممالک کا انتخاب کیا گیا ان میں سے پانچ کم آمدنی والے، بارہ اوسط آمدنی والے اورچار زیادہ آمدنی والے ممالک تھے۔مجموعی طور پر ان تمام ملکوں سے 118,706 مرد و خواتین کے اعداد و شمار استعمال کیے گئے جن کی عمر 35 سے 70 سال تھی جبکہ پیور مطالعے کے آغاز پر وہ صحت مند اور اوسطاً 50 سال کے تھے۔ان تمام افراد میں عمومی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی مالی حیثیت اور اعصابی تناؤ مدنظر رکھتے ہوئے یہ معلوم کیا گیا کہ آئندہ چند سال میں انہیں کون کونسی بیماریاں ہوئی اور وہ صحت کے حوالے سے کن کن مسائل کا شکار ہوئے۔محتاط تجزیئے سے معلوم ہوا کہ مسلسل کام کے دباؤ اور مالی پریشانیوں میں مبتلا رہنے والے لوگوں میں 10 سال کے دوران دل اور شریانوں کے امراض کا امکان، ان مسائل کا سامنا نہ کرنے والوں سے 24 فیصد زیادہ جبکہ فالج کا امکان 30 فیصد تک زیادہ تھا۔اگرچہ اس سے پہلے کی تحقیقات میں بھی اعصابی تناؤ اور مالی مسائل کا مختلف امراضِ قلب اور فالج سے واضح تعلق سامنے آچکا ہے لیکن یہ تمام تحقیقات ایسے لوگوں پرکی گئی تھیں جو پہلے ہی دل کی کسی نہ کسی بیماری کے شکار تھے۔یہ پہلا موقع ہے کہ جب صحت مند افراد کو مالی پریشانیوں اورکام کے دباؤکی بناء پر دل اورشریانوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے دیکھا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔وہ کون کونسے عوامل ہیں جو اس پورے عمل میں امراضِ قلب اور فالج کی وجہ بنتے ہیں؟ اس بارے میں فی الحال ابتدائی نوعیت کی کچھ مبہم معلومات موجود ہیں۔البتہ انہیں پوری درستگی اور اعتماد کے ساتھ جاننے کیلیے مزید تفصیلی تحقیق کی ضرورت پڑے گی۔