کانگریس ‘ ایک اور لیڈر کا استعفیٰ

   

ہوئے ہم جو مرکے رُسوا ، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اُٹھتا ، نہ کہیں مزار ہوتا
کانگریس ‘ ایک اور لیڈر کا استعفیٰ
ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس سے اس کے قائدین اور ارکان اس طرح علیحدگی اختیار کر رہے ہیں جس طرح پت جھڑ میں درختوں سے پتے جھڑتے ہیں اور پھیل جاتے ہیں۔ جو قائدین پارٹی سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں اور پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ان کو کانگریس پارٹی ہی نے شناخت دی تھی اور پارٹی نے ہی انہیں سرکاری اور عوامی رتبے اور عہدے دئے تھے ۔ اب جبکہ کانگریس پارٹی کی حالت کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی ہے اور پارٹی کو اپنے سینئر قائدین کی ضرورت ہے تو یہ قائدین اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے خود پارٹی کو تنقیدوں کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اسے مزید کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ کانگریس سے اب تک کئی سینئر قائدین نے علیحدگی اختیار کرلی ہے ۔ ان میں چاہے کپل سبل ہوں ‘ یا پھر جیوتر آدتیہ سندھیا ہوں یا جئے ویر شیرگل ہوں ‘ جتیندر پرساد ہوں یا پھر آج مستعفی ہونے والے غلام نبی آزاد ہوں۔ غلام نبی آزاد کو کانگریس کا سب سے سینئر اور وفادار لیڈر سمجھا جاتا تھا ۔ وہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے قریبی قائدین میں شمار کئے جاتے تھے ۔ جس وقت تک کانگریس کو اقتدار حاصل تھا اور اس کی حالت مستحکم تھی پارٹی کے سینئر قائدین نے اس کے ساتھ موجود رہے ۔ انہوں نے پارٹی عہدوں اور سرکاری عہدوں دونوں سے استفادہ کیا ۔ خود بھی فائدہ اٹھایا اور اپنے حامیوں کی بھی خاطر مدارت کی ۔ جس وقت کانگریس کو اقتدار حاصل رہا تھا اس وقت ان قائدین نے کسی بھی مسئلہ پر اختلافی بیان نہیں دیا اور نہ ہی پارٹی کے کام کاج کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ وہ ہر موقع اور ہر فورم میں پارٹی اور اس کے موقف کی مدافعت ہی کرتے رہے ۔ پارٹی کے ہر فیصلے میں یہ قائدین حصہ دار رہے ۔ انہوں نے پارٹی کے فیصلوں کی درستگی کی بھی وکالت کی تھی ۔ آج جبکہ کانگریس پارٹی گذشتہ آٹھ سال سے مرکز میں اقتدار سے محروم ہے ۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں اس کا موقف کمزور ہوچکا ہے اور پارٹی اپنے وجود اور بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے تو ان قائدین کو ہر فیصلے اور ہرا قدام میںبرائی نظر آ رہی ہے اور وہ اس کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔
یہ درست ہے کہ کانگریس پارٹی کے کچھ فیصلے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ پارٹی کی پالیسیاں بھی بعض مواقع پر نقصان کا باعث رہی ہیں اور ان کی وجہ سے عوام میں پارٹی کی مقبولیت کا گراف گھٹ گیا ہے ۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ سینئر قائدین پارٹی سے دوری اختیار کرلیں۔ پارٹی فورم میں رہتے ہوئے پارٹی کے غلط فیصلوں اور اقدامات کے خلاف رائے کا اظہار کیا جاسکتا ہے ۔ پارٹی کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں۔ پارٹی قیادت کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ ان کی رائے کا احترام کیا جائے ۔ پارٹی کی عوامی مقبولیت کے گرتے ہوئے گراف کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بہتر تجاویز اور مشورے دئے جاسکتے ہیں۔ جہاںتک پارٹی اور پارٹی قیادت کا سوال ہے تو اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پارٹی قیادت بھی اب کمزور ہوگئی ہے ۔ پارٹی قیادت خود فیصلوں سے گریز کر رہی ہے ۔ پارٹی کا کوئی مستقل صدر نہیں ہے ۔ کوئی قیادت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ سینئر قائدین کی رائے حاصل کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ ان کی تجاویز اور مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں بدظن کیا جا رہا ہے ۔ انہیں پارٹی میں غیر اہم کیا جا رہا ہے ۔ پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے قائدین اور پارٹی قیادت دونوں ہی کو لچکدار موقف اختیار کرتے ہوئے پارٹی کے استحکام کے ایجنڈہ پر کام کرنے کی ضرورت تھی لیکن دونوں ہی نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کی ہے ۔
اب جبکہ آئندہ عام انتخابات کیلئے وقت تیزی سے قریب آتا جا رہا ہے اور مختلف جماعتیں صف بندیوں کی تیار ی کر رہی ہیں ایسے میں اگر کانگریس کے انتشار کا یہی سلسلہ جاری رہا تو پھر بی جے پی کو تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے سے کوئی روک نہیں پائے گا ۔ مخالف بی جے پی ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی صف بندی ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کانگریس کا انتشار ختم ہو ۔ پارٹی اپنی جگہ مستحکم ہو ۔ پارٹی کے سینئر قائدین اس کے ساتھ کھڑے ہوں اور ریاستی سطح پر نوجوان اور اعلی قیادت کو فروغ دیا جائے ۔ کانگریس کیلئے وقت تیزی سے گذر رہا ہے اور پارٹی کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔