12 ماہ میں کئی اہم وعدوں پر عمل آوری
55 ہزار سرکاری ملازمتوں کی فراہمی۔ 21 ہزار کروڑ کا زرعی قرض معاف
پرانے شہر میں میٹرو ریل کی پیشرفت۔ موسیٰ ندی کو ترقی دینے کا منصوبہ
حکمران جماعت کانگریس مطمئن۔ اپوزیشن جماعتیں ناراض
محمد نعیم وجاہت
کسی بھی حکومت کیلئے اپنے اقتدار کا پہلا سال چیلنجس سے بھرپور ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف عوام کی اُمنگیں‘ دوسری طرف حکومت کی ذمہ داریاں‘ تیسری طرف مستقبل کی منصوبہ بندی‘ آئندہ چار سال کے عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت حکومت تشکیل دینے کیلئے انتخابی منشور عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے انتخابات میں مقابلہ کرتی ہے۔ کس جماعت کو حکومت تشکیل دینے کا موقع فراہم کرنا اور کس کو اپوزیشن میں رکھنا اس کا فیصلہ عوام کرتے ہیں۔ 7 ڈسمبر کو ریاست تلنگانہ میں کانگریس حکومت تشکیل دینے کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ ریاست کی موجودہ سنگین مالیاتی صورتحال میں حکومت کی کارکردگی کو یقینا اطمینان بخش قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ریاست تلنگانہ 7 لاکھ کروڑ روپئے کی مقروض ہے۔ حکومت کو اس قرض کی اصل قسط کے ساتھ بطور سود ماہانہ 6500 کروڑ روپئے ادا کرنا پڑرہا ہے جبکہ ایف آر بی ایم کے تحت ریاستی حکومت کو ماہانہ 5 ہزار کروڑ روپئے تک قرض حاصل کرنے کی گنجائش ہے۔ سال 2014 میں متحدہ تلنگانہ ریاست فاضل بجٹ کے ساتھ تشکیل پائی اُس وقت تلنگانہ جذبہ کا ماحول بی آر ایس حکومت کیلئے ساز گار ثابت ہوئی، علحدہ تلنگانہ تشکیل دینے میں تاخیر پر عوام کانگریس سے ناراض تھے دوہرے موقف کی وجہ سے تلگودیشم بھی تلنگانہ میں عوامی تائید سے محروم ہوگئی تھی۔ تلنگانہ تحریک کا حصہ بننے والی سیاسی‘ غیرسیاسی اور ملازمین کی تنظمیں حکومت کے ساتھ ہوگئیں۔ کانگریس اور تلگودیشم کے ارکان اسمبلی کو اس وقت کی ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے چیف منسٹر کے سی آر نے دونوں سیاسی جماعتوں کو کمزور کردیا تھا اور تلنگانہ کی کھل کر مخالفت کرنے والی مجلس کو اپنے ساتھ ملا لیا جس کے بعد ریاست میں اپوزیشن کا وجود ہی تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کی مخالفت کرنے والے کوئی نہ ہونے کی وجہ سے کے سی آر نے من مانی فیصلے کئے اور وہی کام کیا جس کے منصوبے تیار کئے گئے، عوام کیلئے چند اچھی اسکیمات متعارف کراتے ہوئے ان کا دل جیت لیا۔ اس طرح ریاست پر تقریباً 10 سال تک حکمرانی کی اور ریاست کا قرض 7 لاکھ کروڑ روپئے تک پہنچ گیا ۔ اے ریونت ریڈی نے بحیثیت صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی بی آر ایس کے خلاف چلنے والی لہر کو کانگریس کے حق میں موڑنے میں اہم رول ادا کیا، کانگریس ہائی کمان کی ریونت ریڈی کو حاصل ہونے والی حمایت کو دیکھ کر نظریاتی اختلافات کے باوجود کانگریس کے تمام قائدین ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوگئے۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے بھی تلنگانہ میں کانگریس کو اقتدار حاصل کرنے میں اہم رول نبھائی۔ اس طرح کانگریس حکومت کے ایک سال کا سفر مکمل ہوگیا۔ یقیناً اس ایک سال کے دوران حکومت نے کئی تاریخی کارنامے انجام دیئے۔ حکومت تشکیل دینے کے بعد پہلے سال میں 55 ہزار سے زائد سرکاری ملازمتوں کی فراہمی قابل ستائش اقدام ہے جس کی مثال سارے ہندوستان میں نہیں ملتی۔ کسانوں کے قرض معافی کو بھی بہت بڑا کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔ بی آر ایس نے بھی کسانوں کے ایک لاکھ روپئے تک قرض معاف کیا تھا اس کے لئے چار قسطوں میں 5 سال کے دوران قرض معاف کیا گیا تھا۔ کانگریس حکومت نے کسانوں کے دو لاکھ روپئے تک صرف ایک سال میں 25,35,964 کسانوں کے 20,616,89 کروڑ روپئے کے قرض معاف کیا ہے۔ چند کسانوں کے تکنیکی وجوہات اور 2 لاکھ سے زیادہ قرض ہونے کی وجہ سے ان کے قرض معاف نہیں ہوئے۔ تکنیکی مسائل کو حل کرنے کی حکومت کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے۔ جن کسانوں کے 2 لاکھ روپئے سے زیادہ قرض ہیںوہ اوپر کا قرض ادا کرتے ہیں تو ان کے ماباقی 2 لاکھ روپئے تک قرض معاف ہوجائیں گے۔ ایک سال قبل حکومت تشکیل پانے کے صرف 48 گھنٹوں میں دو اہم انتخابی وعدوں کو پورا کرتے ہوئے مہا لکشمی کے تحت خواتین کو آر ٹی سی بسوں میں مفت سفر کی سہولت فراہم کی گئی۔ ایک سال کے دوران 1.74 کروڑ خواتین نے آر ٹی سی بسوں میں مفت سفر کیا ہے اور حکومت نے آر ٹی سی کو 4 ہزار کروڑ روپئے کا معاوضہ ادا کیا۔ کانگریس پارٹی نے 500 روپئے میں پکوان گیس سلینڈر فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور اس اسکیم سے ریاست میں 43 لاکھ افراد استفادہ کررہے ہیں۔ 200 یونٹ تک مفت برقی اسکیم سے 50 لاکھ خاندان استفادہ کررہے ہیں جس کیلئے حکومت بڑے پیمانے پر سبسیڈی کے طور پر ہزاروں کروڑ روپئے جاری کررہی ہے۔ دو دہوں کے بعد 21 ہزار ٹیچرس کو ترقی دی گئی۔ بی آر ایس کے 10 سالہ دور حکومت میں صرف 7 ہزار ٹیچرس کا تقرر کیا گیا تھا جبکہ کانگریس حکومت نے پہلے سال ہی 11 ہزار ٹیچرس کے تقررات کئے ہیں۔ محکمہ صحت میں مختلف امور کیلئے 10 ہزار کروڑ روپئے خرچ کئے گئے، 8 گورنمنٹ میڈیکل کالجس ، 28 پیرا میڈیکل کالجس ،16 نرسنگ کالجس، محکمہ صحت میں 14 ہزار ملازمتیں فراہم کی گئیں۔213 نئے ایمبولینس عوام کو دستیاب کرائے گئے۔ شہر حیدرآباد کی ترقی اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ پرانے شہر میں میٹرو ریل کے تعمیری کاموں کا آغاز ہورہا ہے۔ موسیٰ ندی کو ترقی دینے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ حکومت نے متاثرین سے مکمل انصاف کرنے کا تیقن دیا ہے۔ ایک ہفتہ قبل ہی چیف منسٹر نے 7 ہزار کروڑ روپئے لاگت کے ترقیاتی کاموں کا سنگ بنیاد رکھا اور مختلف پراجکٹس کا افتتاح بھی کیا ہے۔ حکومت نے پہلے سال کئی وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہے مزید وعدوں پر عمل آوری باقی ہے۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے تاہم گذشتہ ایک سال کے دوران مستقبل کی جو حکمت عملی تیار کی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ چار برسوں کے دوران ان وعدوں اور پروگرامس پر بھی عمل آوری ہوگی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک سال کے دوران اقلیتی بہبود کی وزارت خالی ہے۔ مکمل اقلیتی بجٹ جاری ہونے کے امکانات ہیں، میناریٹی ڈیکلریشن پر بھی عمل کرنا باقی ہے تاہم پہلے سال حکومت نے اہم وعدوں پر عمل آوری کو ترجیح دی ہے اور آئندہ چار سال میں ان وعدوں پر بھی عمل آوری ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ ایک سال کے دوران قائد اپوزیشن کے سی آر عوام کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اسمبلی کے اجلاس میں صرف ایک دن شرکت کی اور اپنے آپ کو فارم ہاؤزتک محدود رکھا۔ تاہم کے ٹی آر اور ہریش راؤ عوامی مسائل پر پیش پیش رہے۔ اسمبلی میں شکست کے بعد کے سی آر نے صرف لوک سبھا انتخابات کی مہم میں حصہ لیا تاہم عوام نے بی آر ایس کو مسترد کردیا۔ عوام نے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اہمیت دی مگر مرکزی حکومت نے تلنگانہ کو مرکزی بجٹ، قومی پراجکٹس ، فلاحی اسکیمات اور گرانٹس کی اجرائی میں پوری طرح نظر انداز کردیا۔ بی آر ایس اور بی جے پی ترقیاتی کاموں میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ عوامی مسائل کواجاگر کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے مگر ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ بننا غیر مناسب ہے۔