کانگریس صدر کا انتخاب

   

سکوں سے بہتا تھا دریا جو اپنے گھر کی طرف
سنا ہے اس کو بھی سیلاب سے گزرنا ہے

ملک کی سب سے قدیم کانگریس پارٹی کے صدر کا انتخاب عمل میں آچکا ہے ۔ آج ملک بھر میں کانگریس کے اہل قائدین نے اس انتخاب کیلئے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے اور ملکارجن کھرگے اور ششی تھرور جیسے سینئر قائدین کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا ہے جو بیالٹ باکس میں بند ہے ۔ انتخابی نتائج کا چہارشنبہ کو اعلان کیا جائے گا ۔ کانگریس کیلئے نئے صدر کا انتخاب ایک دشوار گذار مسئلہ بن گیا تھا ۔ کانگریس کی صدارت پر کئی قائدین دوبارہ راہول گاندھی کو فائز دیکھنا چاہتے تھے ۔ر اہول گاندھی نے تاہم اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا ۔ انہوں نے پارٹی صدارت سے دوری ہی کو ترجیح دی ۔ سونیا گاندھی عبوری صدارت سنبھالے ہوئے تھیں۔ پارٹی کے مختلف گوشوں کی جانب سے یہ اصرار کیا جا رہا تھا کہ کارگذار صدر کافی نہیں ہے اور پارٹی کو ایک کل وقتی اور سرگرم صدر کی ضرورت ہے ۔ کچھ گوشوں سے یہ بھی تنقیدیں کی جا رہی تھیں کہ پارٹی میں نہرو۔ گاندھی خاندان کے علاوہ کسی اور کو صدارت سونپی جانی چاہئے ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے اور بھی کئی بیانات دئے جا رہے تھے اور بی جے پی کی جانب سے تنقیدیں الگ سے کی جا رہی تھیں۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ کانگریس کے پاس جمہوری عمل کے ذریعہ صدر منتخب کرنے کا بھی کوئی امکان نہیںہے ۔ تاہم کانگریس نے اب جمہوری عمل کے ذریعہ اپنے صدر کا انتخاب عمل میں لایا ہے ۔ حالانکہ کانگریس نے اس انتخاب کے عمل کو پورا کرنے کیلئے کافی وقت لگایا ہے ۔ اس کام میں کانگریس نے جو تاخیر کی ہے وہ پارٹی کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ کانگریس کیلئے ضروری تھا کہ وہ گذشتہ پارلیمانی انتخابات کی شکست کی وجوہات کا جائزہ لینے کے فوری بعد پارٹی کے استحکام کیلئے اپنی کوششیں تیز کردیتی ۔ جو قائدین خاموش ہوچکے ہیں یا دوری اختیار کرچکے ہیں انہیںدوبارہ قریب کیا جاتا اور متحرک کیا جاتا ۔ تاہم فوری طور پر ایسا کرنے سے گریز کیا گیا ۔ کافی وقت تو راہول گاندھی کو دوبارہ پارٹی صدارت سونپنے کی کوششوں میںصرف کردیا گیا ۔ راہول گاندھی کے مسلسل انکار کے بعد اب باضابطہ انتخاب کے ذریعہ پارٹی صدر کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے ۔
حالانکہ یہ دعوی نہیں کہا جاسکتا کہ صادرتی انتخاب میں کس کو کامیابی ملے گی تاہم یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ سینئر لیڈر و سابق قائد اپوزیشن راجیہ سبھا ملکارجن کھرگے کو اس انتخابی دوڑ میں کامیابی مل سکتی ہے ۔ ملکارجن کھرگے بھی ابتداء میں اس دوڑ کا حصہ نہیں تھے ۔ جب ایک اور سینئر لیڈر و چیف منسٹر راجستھان اشوک گہلوٹ جب انتخابی میدان سے دور ہوگئے تو بحالت مجبوری ملکارجن کھرگے میدان میں اتر آئے ۔ ابتداء سے کہا جا رہا ہے کہ ملکارجن کھرگے کانگریس کے نہرو ۔ گاندھی خاندان کے پسندیدہ امیدوار ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ملکارجن کھرگے نہرو۔ گاندھی خاندان سے اچھی قربت رکھتے ہیں اور ان کے قریبی سمجھے جاتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جس کسی کا بحیثیت صدر انتخاب عمل میں آئے گا وہ انتخابی عمل کے ذریعہ ہوگا اور یہ کانگریس کیلئے ایک اچھی علامت ہے ۔ الیکشن کے ذریعہ نئے صدر کا انتخاب عمل میں لاتے ہوئے کانگریس نے اپنے کارکنوں اور کیڈر کو مستحکم کرنے کی سمت پہلا قدم اٹھایا ہے ۔ اسی طرح پارٹی کو کانگریس کے سینئر قائدین اور جو لوگ ناراض ہو کر خاموش ہوگئے ہیں انہیں بھی دوبارہ پارٹی کے قریب کرنے اور انہیںسرگرم کرنے کی کوششوں کا بھی آغاز کرنا چاہئے ۔ صرف نئے صدر کے ساتھ کام نہیں کیا جاسکتا ۔ نئے صدر کیلئے ایک اچھی ٹیم کی بھی ضرورت ہوگی اور یہ ٹیم اسی وقت اچھی کہی جاسکے گی جب اس میں نوجوان اور سینئر تمام ہی قائدین کا امتزاج ہو ۔ صرف بڑے ناموں پر اکتفاء نہیں کیا جانا چاہئے ۔
کانگریس صدر کے عہدہ پر جو بھی سینئر لیڈر منتخب ہونگے ان کی ذمہ داریاں بھی آسان نہیں رہیں گی ۔ ان کے سامنے پارٹی کے انتخابی چیلنجس ہونگے ۔ پارٹی کی مسلسل شکستوں کا سلسلہ روکنا سب سے اہم کام ہوگا ۔ سینئر قائدین کو اعتماد میں لیتے ہوئے کام کرنا ایک بڑا مسئلہ ہوسکتا ہے ۔ آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے پارٹی کو تیار کرنا سب سے اہم چیلنج ہے ۔ کانگریس پارٹی نے جہاں انتخابی عمل کے ذریعہ نئے صدر کا انتخاب کیا ہے تو وہیں اب دوسرے ایسے امور پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے پارٹی کمزور ہوئی ہے ۔ پارٹی میں دوبارہ جان ڈالنے نئے صدر اور سبھی قائدین کو مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہوگی ۔