کانگریس صدر کے انتخاب میں تاخیر

   

Ferty9 Clinic


کانگریس نے آج یہ اشارہ دیا ہے کہ پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب جاریہ سال جون میں عمل میں آئیگا ۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کا آج ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں پارٹی کے دو گروپس میں اختلاف رائے دیکھا گیا ۔ ایک گروپ چاہتا تھا کہ پہلے ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات پر توجہ دی جائے اس کے بعد داخلی انتخابات پر توجہ کی جاسکتی ہے ۔ تاہم دوسرے گروپ کے دباو کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ ہوسکتا ہے کہ ماہ جون میں پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائیگا ۔ اس سے قبل ٹاملناڈو اور مغربی بنگال سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات پورے ہوجائیں گے ۔ ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کانگریس صدر کے انتخاب میں تاخیر خود پارٹی اورا پوزیشن جماعتوں کے اتحاد کیلئے بہتر نہیں کہی جاسکتی ۔ جس طرح سے کانگریس میں عملا دو گروپس بن گئے ہیں وہ خودبھی پارٹی اور اپوزیشن اتحاد اور حکومت کے خلاف جدوجہد کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ کانگریس پارٹی کو ملک میں سب سے بڑی اپوزیشن کی ذمہ داری پوری طاقت کے ساتھ نبھانے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے یہ بہتر ہوگا کہ پارٹی کے نئے صدر کا تمام قائدین اور کیڈر کی تائید سے اتفاق رائے سے انتخاب عمل میں لایا جائے ۔ نئے صدر کو بھی پارٹی کی ذمہ داریوں پر ساری توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جس طرح کہا جا رہا ہے کہ پارٹی صدر کو عوامی سطح پر اپنے وجود کا احساس دلاتے رہنا چاہئے اسی مناسبت سے احتجاجی حکمت عملی کو قطعیت دیتے ہوئے حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے کیلئے کمر کسنے کی ضرورت ہے ۔ اس کام میں جتنی تاخیر ہوگی اتنی ہی اپوزیشن اتحاد کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اپوزیشن کو اپنے استحکام کیلئے سارے اختلافات کو فراموش کرنے کی ضرورت ہے اورا س کام کو کانگریس کی تائید و سرپرستی کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہونچایا جاسکتا ۔ آج انتہائی گئی گذری حالت میں بھی سارے ملک میں کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ موجود ہے ۔ اس ڈھانچہ کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ کارکنوں اور کیڈر میں نیا جوش پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔
جس طرح سے آج فیصلہ کیا گیا کہ کانگریس کے نئے صدر کا جون کے مہینے میں انتخاب عمل میں لایا جائیگا اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ابھی سے ایسی حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے جس کے ذریعہ پارٹی کے تمام قائدین اور کارکنوں کو اعتماد میں لیا جاسکے ۔ جب تک تمام گروپس کو متحد نہیں کیا جاتا اور سبھی کے اختلافات کو ختم کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی اس وقت تک پارٹی کے صدر کا انتخاب نئی جان ڈالنے میں معاون نہیں ہوگا ۔ جب تک اختلافات کو ختم کرتے ہوئے پارٹی قائدین کو ایک مقصد پر متحد نہیں کیا جاتا اور سبھی کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا اس وقت تک حکومت سے مقابلہ کرنا کانگریس کیلئے ممکن نہیں ہوگا ۔ کانگریس کو یہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی کہ ایک لیڈر ایک زبان میں بات کرے تو سارے اس کی تائید و حمایت میں میدان میں اتر آئیں۔ سوشیل میڈیا پر تشہیر کو خاص توجہ کے ساتھ اہمیت دینے کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کے پروگراموں کو پیش کرنے کے علاوہ حکومت کی ناکامیوں اور غلط فیصلوں اور ان سے عوام کو ہونے والی مشکلات کو پیش کیا جانا چاہئے ۔ کانگریس اپنے آپ میں اگر مستحکم ہوگی تو دوسری اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں۔ ان جماعتوں کو بھی مخالف حکومت محاذ میں شامل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ علاقائی جماعتیں بھی آج مرکز کی طاقت کے آگے خود کو بے بس محسوس کر رہی ہیں ۔ ان جماعتوں کو بھی مرکز کے خلاف متحد کرتے ہوئے میدان عمل میں سرگرم کیا جاسکتا ہے تاکہ عوام میں شعور بیدار کیا جاسکے ۔
اب جبکہ کانگریس کے نئے صدر کے انتخاب کیلئے پانچ ماہ کا وقت حاصل کیا گیا ہے تو اس وقت کو بھی بہتر اور موثر انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک اس تعلق سے ایک جامع حکمت عملی نہیں بنائی جاتی اور جو وقت دستیاب ہوا ہے اس کا بہتر استعمال نہیں کیا جاتا اس وقت تک کسی بھی فیصلے کے بہتر اور مثبت نتائج کی توقع کرنا فضول ہی ہوگا ۔ کانگریس میں داخلی مشاورت کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اختلاف رائے کو مخالفت سمجھ کر مسترد کرنے کی بجائے اس کو اہمیت دینے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے اور مثبت پہلووں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جب ایک فیصلہ ہوجائے اور نئے صدر کا انتخاب ہوجائے تو پھر حکومت کے خلاف جدوجہد کو موثر اور ثمر آور بنایا جاسکے ۔